ادھار کی وجہ سے سودا زیادہ قیمت پر بیچنے کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میں نے گاڑی بارہ ہزار ایک سو ریال میں خریدی تھی اور پانچ ماہ کے ادھار پر چودہ ہزار ایک سو ریال میں بیچ دی۔ امید ہے فتویٰ عطا فرمائیں گے کہ یہ بیع سودی ہے یا غیر سودی؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر فرمایا ہے تو یہ بیع جائز ہے بشرطیکہ آپ نے گاڑی خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے لی ہو اور پھر اسے بیچا ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یـٰأَیُّہَا الَّذینَ ءامَنوا إِذا تَدایَنتُم بِدَینٍ إِلیٰ أَجَلٍ مُسَمًّی فَاکتُبوہُ...٢٨٢﴾... سورة البقرة "اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔" اور "صحیحین" میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی ایک زرہ رہن رکھی[1] اس میں ان شاءاللہ سود نہیں ہے خواہ ادھار کی صورت میں قیمت، نقد قیمت کی نسبت زیادہ ہو۔ [1] صحیح بخاری، الرھن، باب من رھن درعہ، حدیث: 2509 وصحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1603 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب محدث فتوی فتوی کمیٹی |
Book Name | اجتماعی نظام |
Writer | متفرق |
Publisher | متفرق |
Publish Year | متفرق |
Translator | متفرق |
Volume | متفرق |
Introduction | فتاوے متففرق جگہوں سے ، مختلف علما کے، مختلف کتابوں سے نقل کئے گئیے ہیں۔ البتہ جمع و ترتیب محدث ٹیم نے ، تصحیح و تنقیح المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر نے کی ہے |