ہے جتنا کسی انسان کا آسمان پرچڑھنا مشکل ہے۔ قرآن اور جدید سائنس کے مؤلف مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’قرآن حکیم نے خلا کی تسخیر کے لئے انسان میں تحریک پیدا کی۔ اس آیت میں آسمان کی طرف چڑھنے کی طرف اشارہ ہے جسے ہمارے قدیم مفسرین نے نظر انداز کیا حتی کہ سائنس نے ہمیں واضح کیا۔ خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس وقت جو ناقابل یقین حد تک پیش رفت ہوئی ہے اسے بھی قرآن حکیم نے نہایت خوبصورتی سے واضح کردیا تھا۔‘‘[1] یہ تفسیر کسی ایسے آدمی کے لئے تو قابل قبول ہو سکتی ہے جو قرآن مجید کو سائنس سمیت دیگر تمام علوم کا ملغوبا سمجھتا ہو ، لیکن جو شخص قرآن مجید کو بنی نوع انسان کے لئے منزل من اللہ کتاب ِہدایت سمجھتا ہے وہ اس قسم کی مضحکہ خیز اور سیاق و سباق سے بے ربط تفسیر کوکیسے قبول کرسکتا ہے؟ 4 سورہ الرحمن کی آیت 33میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اِنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ،﴾ترجمہ’’ اے گروہ جن و انس ! اگر تم زمین و آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہوتو بھاگ جاؤ اس کے لئے بڑا زور چاہئے۔‘‘ آیت کے ترجمہ سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ جن و انس کو اپنی پکڑ سے ڈرا رہے ہیں اور ساتھ یہ واضح فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں تم اللہ تعالیٰ سے بچ کر فرارنہیں ہو سکتے اور اگر کسی کے جی میں ایسا گھمنڈ ہے تو وہ پورا کردیکھے۔ قرآن اور جدید سائنس کے مؤلف اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’اے گروہ جن و انس ! تم دونوں زمین کی حدود سے نہیں نکل سکتے پھر یہ بھی فرمایا کہ تم نکل سکتے ہو مگر سلطان کے ذریعہ۔ راقم الحروف کی حقیر دانست میں یہاں ’’سلطان ‘‘ سے مراد خلائی ٹیکنالوجی ہے جو کہ موجودہ دور میں ’’راکٹ‘‘ ہی ہو سکتا ہے جس کی مدد سے انسان زمین سے نکل کر چاند کی حدود میں داخل ہوا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلا کی تسخیر کی نوید سنائی تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس پر توجہ نہ دی اور مغربی اقوام نے خلا کی تسخیر کرکے مسلمانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔[2] |