نظریہ ارتقاء ثابت کرنے کے لئے مؤلف موصوف ﴿خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ﴾ ’’یعنی تم سب لوگوں کوایک جان یعنی آدم سے پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورہ النساء آیت 1) کی تفسیر یوں فرماتے ہیں کہ نفس وحدۃ سے مراد ’’وحدۃ الخلیہ‘‘ ہے۔[1] یہ تفسیر قرآن مجید کی بے شمارآیات کے خلاف پڑتی ہے۔ مثلاً ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا،﴾ترجمہ :’’کیا انسان پر ایک ایسا زمانہ نہیں گزرا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔‘‘ (سورہ الدھر، آیت 1) حالانکہ نظریہ ارتقاء کے مطابق آدم سے پہلے مکھی ، مچھر، ٹڈے ، پرندے ، سانپ، مینڈک ، بندر بنے۔ کیا یہ ساری چیزیں قابل ذکر نہیں؟ 2 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر لے جانا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج پر جانا دونوں معجزات میں سے ہیں ، لیکن قرآن اور جدید سائنس کے مؤلف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کے بارے میں قرآن مجید کی واضح آیات کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’اس وقت ہماری لاعلمی اور جہالت کسی بھی ایسے واقعہ کو معجزہ تسلیم کرنے کی ذمہ دارہے کیونکہ یہ دونوں واقعات سائنسی اصولوں کے مطابق رونما ہوئے۔ اگرچہ ان اصولوں کا ہم آج ادراک نہیں رکھتے۔[2] یعنی اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کو معجزات ماناجائے تو وہ سراسر جہالت ہے اور اگر نامعلوم سائنسی اصولوں کو ان واقعات کی بنیاد تسلیم کیاجائے تو یہ عین عقلمندی ہے؟یا دوسرے الفاظ میں ایمان بالغیب کی مکمل نفی اور ایمان بالاسباب پر مکمل ایمان … یہ ہیں ثمرات ہمارے مادہ پرستانہ اور بے خدا نظام تعلیم کے! خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ 3 قرآن مجید میں ایک جگہ کفار کی اسلام سے نفرت کو درج ذیل مثال سے واضح کیا گیا ہے۔ ﴿ فَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ‘ یَجْعَلْ صَدْرَہ‘ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ ترجمہ : ’’اللہ جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ (اسلام کے لئے) تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ آسمان پر چڑھ رہا ہو۔‘‘ (سورہ الانعام ، آیت 125) اس مثال میں یہ واضح کیاگیا ہے کہ کافر کے لئے ایمان لانا اتنا ہی مشکل |