Maktaba Wahhabi

249 - 2029
(581) آپ داڑھی بڑھائیں رکھیں ،وہ گناہ گار ہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ ! میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے لیکن میرے رشتہ داروں یا جاننے والوںمیں سے جو شخص بھی مجھ سے ملتا ہے، میری داڑھی کامذاق اڑاتا ہے اورکہتاہے کہ داڑھی چھوٹی کروالوجبکہ میں نے مصمم ارادہ کر رکھاہے کہ میں پوری داڑھی رکھو ںگا ۔ کیا داڑھی کٹوانا جائز ہے یا میں اپنی داڑھی پوری ہی رہنے دوں اور ان کی باتوں کودیوار پر دے ماروں ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے اور آپ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے داڑھی پوری رکھیں ۔ باقی رہی لوگوں کی باتیں تو انہیں دیوار پر دے ماریں ۔ ان کی ان باتوں کی تردید اور انہین اللہ تعالی ا خوف یا د دلائیں ۔ ان لوگوں کے لیے اس طرح کی باتیں کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ ان کا یہ کام در حقیقت شیطان کی نیابت ہے ۔ کیونکہ اس طرح یہ لوگ شیطان کےنائب ہیں ، جو اللہ تعالی کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے تو فرمایا ہے " خَالِفُوا المُشْرِکِینَ: وَفِّرُوا اللِّحَی، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ " (صحیح البخاری، اللباس باب تقیلیم الاظفار ، ح 5892، وصحیح مسلم ، الطہارة ، باب خصال الفطرة ، ح 259) ’’مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ ارو مونچھیں کٹواؤ ۔‘‘ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا : " جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَی، وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ " (صحیح مسلم * الطہارة ،باب خصل الفطرة ،ح 260) مونچھیں منڈواؤ ،داڑھی بڑہاؤ اورمجوسیوں کی مخالفت کرو ۔‘‘ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا : ’’ووفروا اللحی‘‘ (صحیح البخاری ، اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، ح 5892) ’’داڑھی پوری رکھو۔‘‘ لہذا واجب یہ ہے کہ داڑھی کو چھوڑ دیا جائے ، اسے بڑھایا جائے اور اسے پورا رکھا جائے اور ان فاسقوں کی بات نہ مانی جائے ، جو اس کے کٹانے یامنڈوانے کی دعوت دیتے ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے ۔ ان کی یہ بات اس حدیث کی مصداق ہے ، جس میں یہ ہے کہ آخری زمانےمیں کچھ ےایسے شیطان آئیں گے ،جو اللہ تعالی کی نافرمانیوں اور محرمات کے ارتکاب کی دعوت دیں گے ۔ اسی طرح حدیث حذیفہ میں ہے کہ جب حضرت حذیفہ ﷜ نے رسول اللہﷺ سے اس شر کے بارےمیں پوچھا جو بعد میں واقع ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ہاں یہ شربعد کے آخری دور میں واقع ہوگا اور پھر اس دور میں جہنم کے دروازوں پر داعی ہونگے ، جس نے ان کی بات کو قبول کیا تواسے وہ جہنم رسید کردیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ ﷺ ! ہمارے لیے ان کی کوئی علامت بیان فرمادیں تو آپ نے فرمایا :’’لوگ ہمیں میں سے ہونگے اور ہمائی بات کامذاق اڑائیں گے (صحیح البخاری ، المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلا م ، حدیث 3606وصحیح المسلم ، الامارۃ ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن ، حدیث 1847) اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے ۔یہ اور اس طرح کے دیگر لوگ انہی میں سے ہیں جن کا رسول اللہﷺ نے ذکر فرمایا ہے۔ یہ لوگ جہنم کے داعی ہیں ۔ کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کی بات کوقبول کرے یاان کی طرف مائل ہو بلکہ اسے چاہیے کہ ان کی مخالفت اور نافرمانی کرے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کو اختیار کرے ۔ واللہ المستعان ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص439
Flag Counter