اور آدم نما بندرسے آدم بنا۔ یہ ہے خلاصہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا۔[1] علم وحی سے ناآشنا ذہن اگر ایسی تخیلاتی باتیں کہہ دے تو اس میں تعجب کی بات نہیں لیکن اگر علم وحی پر ایمان کا دعویٰ رکھنے والا شخص اس قسم کے تخیلاتی نظریئے کو تسلیم کرنے کے لئے قرآن مجید کی آیات کی تاویلیں کرنے لگے یاصحیح احادیث کا انکار کردے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ایسا شخص درحقیقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا بلکہ ڈارون پر ایمان لایا ہے۔[2] اس وقت ہمارے سامنے قرآن اور سائنس کے موضوع پر لکھی ہوئی تین چار کتب ہیں، جن میں کم و بیش ایک ہی طرح کی سوچ کارفرما ہے۔ ان میں سے ایک کتاب ’’قرآن اور جدید سائنس ‘‘ ہے جس کے مؤلف نے نظریہ ارتقا ء کو ثابت کرنے کے لئے نہ صرف قرآنی آیات کی تاویلیں کی ہیں بلکہ صحیح احادیث کا انکار بھی کیا ہے۔ مثلاً نظریہ ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف فرماتے ہیں ’’نظریہ ارتقاء پر بحث کرنے سے پہلے ایک دو غلط فہمیاں دو ر کرلیجئے جو ہمارے ہاں یہودیوں اور عیسائیوں سے آئی ہیں (اور نظریہ ارتقاء کہاں سے آیا ہے؟مؤلف) جن کو ہمارے ہاں ایک طبقہ نے قبول کر لیا ہے حالانکہ قرآن میں اس کے متعلق ایک اشارہ بھی نہیں آیا۔پہلی بات یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے ماں باپ نہ تھے اور دوسری یہ بات کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا گیا۔[3] ’’قرآن اور جدید سائنس‘‘ کے مؤلف کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾یعنی ’’میں نے آدم کواپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورہ رضی اللہ عنہ ، آیت 75) یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کسی دوسرے انسان کے لئے استعمال نہیں فرمائے جس کا مطلب ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق عام انسانوں سے ہٹ کر والدین کے بغیر تھی۔اسی طرح حضرت حواiکو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کرنے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے (( اِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضَلَعٍ )) ’’ عورت پسلی کی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘ (مسلم ، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء) |