بلا شبہ قرآنی آیات کے ساتھ سائنسی اکتشافات کی تطبیق سے نہ صرف یہ کہ ایک مسلمان کو قلبی مسرت محسوس ہوتی ہے بلکہ اس کے ایمان میں اور بھی اصافہ ہوتا ہے اور بعض قلب سلیم رکھنے والے خوش نصیب غیر مسلم ان اکتشافات سے متاثر ہو کرمسلمان بھی ہوجاتے ہیں، لہٰذا ایسی آیات کی تفسیر اور تشریح کرتے ہوئے سائنسی اکتشافات کا حوالہ دینے میں قطعاً کوئی حرج نہیں جن میں باہمی ربط اور تطبیق پائی جاتی ہو، لیکن صلی اللہ علیہ وسلم س کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ قرآن مجید سائنس کی کتاب ہے جس کا مقصد لوگوں کو سائنسی علوم سے آگاہ کرنا یا سائنسی علوم میں ترقی کی رغبت دلانا یا سائنسی ایجادات کی پیش گوئیاں کرنا ہے۔بعض حضرات نے سورہ النحل کی آیت 89 ﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْئٍ﴾ترجمہ :’’ ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے۔‘‘ میں ﴿ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْئٍ﴾ سے مراد ہر طرح کے علوم لئے ہیں۔ مثلاً سائنس ، تاریخ ، جغرافیہ، حساب ، معاشیات وغیرہ… حالانکہ یہ درست نہیں۔ یہاں ہر چیز سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا تعلق انسان کی ہدایت سے ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار آیات ایسی ہیں جن کی تشریح یا تفسیر سائنس کے نکتہ نظر سے ممکن ہی نہیں۔ مثلاً معجزات کی آیات، نادیدہ مخلوق…روح ، جنات اور فرشتوں سے متعلق آیات ، موت اور برزخ کے متعلق آیات، جنت اور جہنم کے متعلق آیات وغیرہ۔یہ تمام آیات ایسی ہیں جن کی کوئی تشریح آج تک سائنس کر سکی ہے نہ کرسکے گی یہی وجہ ہے کہ علم سائنس اورعلم وحی کے فرق کو نہ سمجھنے والے حضرات ایسے مقامات پر فوراً ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 1 ڈارون (1808ء…1882ء) نے انسانی تخلیق کے بارے میں نظریہ ارتقاء (Evolution Theory) پیش کیا جس کے مطابق آج سے دو ارب سال پہلے پانی میں موجود عناصر کاربن آکسیجن اور ہائیڈروجن نے کروٹ لی اور اچانک ایک خلیہ (Single Cell) کی شکل اختیار کرلی۔ اس خلیے نے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے حیوانات اور نباتات کے خلیوں کی الگ الگ شکلیں اختیار کیں اورپھر ان دو خلیوں سے ایک جاندار خلیہ (امیبا) پیدا ہوا اس سے آگے لاکھوں ، کروڑوں خلیوں کے حیوان مثلاً پیرا میسیم ، سائی کون، آبیہ، جیلی مچھلی، پلے ٹیریا، ایس کیرس، جونک، کیچوا، مکھیاں ، مچھر، ٹڈے، کیکڑے ، تارا مچھلی، مینڈک، کرلے، سانپ، پرندے ، بندر او رپھر آدم نما |