یہ انداز فکر دراصل نتیجہ ہے ایک طرف مغرب کی مادی ترقی سے مرعوبیت کا اور دوسری طرف ضعف ایمان اور علم دین سے تہی دامنی کا ، جس میں انسان اپنی سوچ کو تو بدلنے کے لئے کسی قیمت پر آمادہ نہیں ہوتا البتہ شریعت کے احکام ، اسلامی تعلیمات اور قرآنی آیات کو بدلنے اور توڑنے موڑنے میں قطعاً کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ 5 اہل کتاب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی ﴿ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً،﴾ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل ، آیت85)آیت کریمہ میں واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ روح کی حقیقت کو سمجھنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ انسان کو اتنا علم ہی نہیں دیا گیا جس سے وہ روح کی حقیقت کو سمجھ سکے۔ قرآن اور جدید سائنس کے مؤلف روح کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں ’’مصنف کی حقیر دانست کے مطابق روح کا تعلق بیرونی ہوا سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو روح حضرت آدم علیہ السلام کے خاکی جسم میں پھونکی وہ ہوا ہی ہو سکتی ہے[1] کیونکہ پھونک کا تعلق ہوا سے ہی ہو سکتا ہے اور ہوا میں زندگی کا منبع آکسیجن ہے۔ اگر آکسیجن کی ترسیل ایک لمحے کے لئے رک جائے تو جسم کی ہلاکت یقینی ہے۔ یہی روح ہوا سے پھیپھڑوں کے ذریعہ خون میں جذب ہو کر انسان کو زندہ رکھتی ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ روح یا آکسیجن ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اگر ایسا نہیں تو پھر روح میں آکسیجن کا عنصر ضرور موجود ہے۔‘‘[2] قرآن اور جدید سائنس کے فاضل مؤلف نے کئی صفحات پر مشتمل طویل تشریح میں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی کہ اگر روح کی حقیقت یہی ہے جو مذکورہ سطور میں بیان کی گئی ہے تو پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آیت کریمہ میں ﴿وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلا ً،﴾کیوں ارشاد فرمایاہے۔ روح کی مذکورہ تشریح تو اس قدر عام فہم اور آسان ہے کہ میٹرک کا طالب علم بھی اسے بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے؟ 6 قرآن اور جدید سائنس کے مؤلف نے کتاب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو واقعات کا ذکر |