Maktaba Wahhabi

1365 - 2029
(471) مینڈک قتل کرنے اور کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا مینڈک قتل کرنا ناجائز ہے؟ کیا مینڈک بری و بحری حیوانات میں شمار ہوتا ہے؟ اگر بری ہو تو کیا پھر بھی اسے ذبح کیے بغیر کھانا جائز ہے کیونکہ لوگ اسے ذبح نہیں کرتے اور نہ ہی اسے ذبح کرنا ممکن ہے کیونکہ اس کی گردن ہی نہیں ہے؟ لوگ کھانے کیلئے اس کے پاؤں کاٹ لیتے اور باقی حصے کا بیان پھینک دیتے ہیں اور اگر یہ بحری ہو تو پھر اسے کیوں نہ اس سمندری شکار میں شمار کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرا ردیا ہے؟ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مینڈک کے قتل کی ممانعت میں وارد تمام احادیث ضعیف ہیں‘ آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مینڈک کھانے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جائز قرار دینے والوں میں امام مالک بن انس رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا اہل علم ہیں اور ناجائز قرار دینے والوں میں امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا اہل علم ہیں۔ جائز قرار دینے والوں کا استدلال آیت کریمہ: ﴿أُحِلَّ لَکُم صَیدُ البَحرِ‌ وَطَعامُہُ مَتـٰعًا لَکُم وَلِلسَّیّارَ‌ةِ... ﴿٩٦﴾...سورة المائدة ’’تمہارے لیے دریا کی چیزوں کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کے لئے‘‘۔ اور دریا کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث: «ہوا الطہور ماؤہ الحل میتتہ» (سنن أبی داؤد) ’’اس کا پانی پاک اور اس میں مرا ہوا جانور حلال ہے‘‘۔ کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ مینڈک بھی دریائی شکار ہونے کی وجہ سے اس عموم میں داخل ہے اور جنہوں نے مینڈک کے کھانے کو ناجائز قرار دیا ہے انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے امام ابو داؤدرحمہ اللہ نے ’’طب‘‘ اور ’’ادب‘‘ کے ابواب میں اور امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’صید‘‘ کے باب میں باواسطہ ابن ابی ذئب عن سعید بن خالد بن سعید بن مسیب بن عبدالرحمن بن عثمان قرشی رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے: «أَنَّ طَبِیبًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ضِفْدَعٍ، یَجْعَلُہَا فِی دَوَاءٍ فَنَہَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِہَا » ( سنن أبی داؤد) ’‘ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مینڈک کے دوا میں استعمال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا‘‘۔ امام احمد‘ اسحاق بن راہویہ اور ابو دائود طیالسی رحمہ اللہ نے اپنی اپنی ’’مسانید‘‘ میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’مستدرک‘‘ کے ’’فضائل‘‘ اور ’’طب‘‘ کے ابواب میں عبدالرحمن بن عثمان تیمی نے اسے روایت کیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مینڈک کے بارے میں جو کچھ وارد ہے‘ اس میں سب سے زیادہ قوی یہی حدیث ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مینڈک کھانا حرام ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے اور قتل حیوان کی ممانعت یا تو اس کے احترام کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ آدمی کو قتل کرنا اس کے احترام کی وجہ سے منع ہے یا یہ ممانعت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اسے کھانا حرام ہوتا ہے جیسا کہ مینڈک کو قتل کرنا اس لیے حرام ہے کہ اسے کھانا حرام ہے۔ اس حدیث پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں ایک راوی سعید بن خالد ہے جسے امام نسائی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مدنی ہیں اور قابل استدال ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص427
Flag Counter