3 ام الفتن … ٹی وی: یوں تو اب ہر روز نئے سے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں جو مسلمانوں کو ان کی مقدس کتاب سے بڑی تیزی کے ساتھ دور کرتے چلے جارہے ہیں لیکن ٹی وی ان تمام فتنوں میں سے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ ٹی وی سے پہلے عام طور پر مسلمان گھرانوں کا معمول یہ ہوتا تھا کہ والدین فجر کی نماز کے وقت اٹھتے ، نماز فجر ادا کرنے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتے ، بچوں کو نماز کے لئے جگاتے ، نماز پڑھانے کے بعد انہیں محلہ کسی گھر یا مسجد میں قرآن پڑھنے کے لئے بھیج دیتے ، پھر سکول کی باری آتی گھر کے افراد اپنے روز مرہ کے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد سر شام کھانا کھالیتے مغرب کی نماز کے بعد والدین اپنے بچوں کو سیرت انبیاء، سیرت صحابہ کے واقعات سناتے، چھوٹی چھوٹی سورتیں اور دعائیں وغیرہ یاد کرواتے اور نماز عشاء پڑھتے ہی بچوں کوسلا دیا جاتا اور والدین بھی سو جاتے۔کسی مجبوری کے بغیر نماز عشاء کے بعد جاگنے کا تصور ہی نہ تھا۔ اس طرز عمل میں عموماً بچے میٹرک تک ناظرہ قرآن مجید ختم کر لیتے۔ تیسویں پارے کی کچھ چھوٹی چھوٹی سورتیں زبانیں یاد کر لیتے ، اسلامیات کی کچھ نہ کچھ تعلیم سکولوں میں مل جاتی اور کچھ گھروں میں والدین سے مل جاتی۔ یوں ہر بچے کو اسلام کے بنیادی عقائد ، مسائل اور احکام سے آگاہی ہوجاتی۔ عملی زندگی میں ذاتی مطالعہ بچوں کی دینی معلومات میں مزید اضافہ کا باعث بنتا۔ ٹی وی نے لوگوں کے مزاج ، معمولات ، عادات و اطوار ، ذوق اور اقدار کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی دن کا آغاز ، ٹی وی کی نشریات دیکھنے اور سننے سے ہوتا ہے (الا من شاء اللّٰہ) بچوں کے سکول جانے تک بچوں کی ایک نظر ٹی وی پر ہوتی ہے اور دوسری نظر اپنی تیاری پر۔ سکول میں بھی بچوں کا بیشتر وقت ٹی وی ڈراموں، فلموں،ایکٹروں،ایکٹرسوں،کھیلوں،کھلاڑیوں اور کمرشل اشتہاروں پر بحث اور تبصرے کرتے گزر جاتاہے۔ سکول یا دفتر سے واپسی کے بعد چند گھنٹے سستانے اور تازہ دم ہونے کے بعد تمام اہل خانہ پھر ٹی وی کے سامنے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے اپنے پسندیدہ پروگراموں کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رات سونے تک جاری رہتاہے خاص خاص پروگراموں کا کئی کئی روز قبل بڑی بے چینی سے افراد خانہ انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس طرز زندگی نے قرآن مجید کی تعلیم تو کیا لوگوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد تک پورے کرنے سے محروم کردیا ہے۔ٹی وی نہ صرف لوگوں کی عاقبت |