Maktaba Wahhabi

1227 - 2029
(505) برھہ یا عتامہ کے بارے میں حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ دو یا تین یا اس سے بھی زیادہ اشخاص میں جھگڑے کی صورت میں بستی کے بزرگ یا قبیلہ کا شیخ جھگڑا کرنے والوں کے معاملات کا جائزہ لیتا ہے۔ جھگڑے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد‘ جھگڑے کی بنیادی وجہ اور یہ معلوم کرنے کے بعد کہ اصل غلطی کس کی ہے‘ وہ غلطی کا ارتکاب کرنے والے پریہ فرض قرار دے دیتے ہیں کہ وہ دو یا تین یا بسا اوقات اس سے بھی زیادہ جانوروں کو ذبح کرے اور جس کی غلطی کم ہو اسے یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ بھی کم از کم ایک جانور ذبح کرے۔ چنانچہ ان میں سے ہر شخص پر جس قدر فرض قرار دے دیا گیا ہوتا ہے‘ وہ اسے ذبح کرتا ہے اور پھر کھانے پر لوگ اور فیصلہ کرنے والے منصف بھی حاضر ہوتے ہیں۔ جھگڑا کرنے والے خواہ فقیر ہوں یا غنی ان کےلیے منصفوں کے احکام کی اطاعت کے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس عادت کو ’’برہہ‘‘ یا ’’عتامہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اکثر و بیشتر فیصلوں میں حکومتی اداروں کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ میرا سوال ان عادات کے بارے میں ہے کہ کیا یہ جائز ہیں یا ناجائز؟ کیا اس طرح جانوروں کو ذبح کرنے والا اس ارشاد نبوی کے مصداق تو نہیں ہے: «لعن اللہ من ذبخ لغیر اللہ» (صحیح مسلم) ’’جو غیراللہ کیلئے ذبح کرے‘ اللہ اس پر لعنت کرے‘‘۔ یاد رہے یہ جو جانور ذبح کیے جاتے اور خون بہائے جاتے ہیں یہ کسی ایک شخص یا اشخاص یا رئیس یا روسائے قبیلہ کی رضامندی کےلیے ہوتے ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! تنازعات کا فیصلہ کرنا تاکہ خطاکار کی خطا کو واضح کیا جائے اور جس پر زیادتی ہوئی ہے‘ اس کی مدد کی جائے‘ آپس میں صلح کرا دی جائے اور اس حق کے ساتھ تنازعات کا فیصلہ کیا جائے جسے اسلامی شریعت لے کر آئی ہے‘ کتاب و سنت کی روشنی میں حق اور مشروع ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنینَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَینَہُما ۖ فَإِن بَغَت إِحدیٰہُما عَلَی الأُخر‌یٰ فَقـٰتِلُوا الَّتی تَبغی حَتّیٰ تَفیءَ إِلیٰ أَمرِ‌ اللَّہِ ۚ فَإِن فاءَت فَأَصلِحوا بَینَہُما بِالعَدلِ وَأَقسِطوا ۖ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ المُقسِطینَ ﴿٩﴾... سورة الحجرات ’’اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے‘ پس جب وہ رجوع کرے تو دونوں فریقوں کے درمیان عدل و انصاف کیساتھ صلح کرا دو اور (پورے) انصاف سے کام لو یقینا اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ نیز فرمایا: ﴿لا خَیرَ‌ فی کَثیرٍ‌ مِن نَجویٰہُم إِلّا مَن أَمَرَ‌ بِصَدَقَةٍ أَو مَعر‌وفٍ أَو إِصلـٰحٍ بَینَ النّاسِ ۚ وَمَن یَفعَل ذ‌ٰلِکَ ابتِغاءَ مَر‌ضاتِ اللَّہِ فَسَوفَ نُؤتیہِ أَجرً‌ا عَظیمًا ﴿١١٤﴾... سورة النساء ’’ان لوگوں کی بہت سی سرگوشیوں میں کوئی بھلائی (کی بات) نہیں ہوتی سوائے اس شخص کے کہ خیرات دینے کی‘ یا نیک کام کرنے کی‘ یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی ترغیب دی ہو اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کےلیے ایسا کام کرے گا‘ تو ہم اس کو بہت بڑا ثواب دیں گے‘‘۔ وہ جانور جنہیں معاملہ کے دونوں فریق جھگڑا ختم ہو کر صلح ہو جانے کے بعد ذبح کرتے ہیں‘ اگر یہ ذبح کرنے والے کی طرف سے صدقہ اور راس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کےلیے ہیں کہ اس نے امن و سلامتی کے ساتھ جھگڑے سے خلاصی عطا فرمائی اور پہلے کی اسی اخوت و محبت کی طرف رجوع کی توفیق عطا فرمائی تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ شریعت نے اس کی ترغیب دی ہے اور یہ ان نصوص کے عموم میں داخل ہے جن میں نیکی کی ترغیب اور نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلاً: حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے عادت نہ بنایا جائے اور ان واجبات کی طرح اسے لازم قرار نہ دیا جائے جو اپنے اوقات و اسالیب کے ساتھ مخصوص ہیں‘ نیز اپنی مادی طاقت و حیثیت سے کسی بھی انسان کو تجاوز نہیں کرنا چاہئے ورنہ ممنوع ہوگا اور اگر معاملات کی تحقیق کرنے والا اور فریقین میں صلح کرانے والا شخص اسے دونوں فریقوں پر اس طرح لازم قرار دے کہ جو اسے سرانجام نہ دے سکے‘ اس کیلئے اسے عیب و عار تصور کیا جائے اور بسا اوقات اس سے صلح بھی ختم اور فیصلہ کالعدم قرار پائے اور لڑائی جھگڑا پہلے ہی کی طرح یا اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہو جائے تو یہ ایک ایسا فیصلہ ہوگا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا‘ ہاں البتہ اگر یہ زیادتی یا غلطی کرنے والے کیلئے تعزیری سزا ہوا اور یہ اس کی زیادتی اور غلطی کے بقدر (برابر) ہو اور اس سے مقصود اسے ادب سکھانا اور جس پر زیادتی ہوئی ہے اس کی دل جوئی کرنا ہو تو یہ ان فقہاء کے بقول جائز ہے جو مال کی صورت میں تعزیری سزا نیز اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ یہ مال وہاں خرچ کیا جائے جہاں دونوں منصف مناسب سمجھیں۔ یعنی اگر ان کی رائے میں اسے بیت المال میں جمع کرانا مناسب ہو تو بیت المال میں جمع کرا دیا جائے اور اگر وہ اسے نیکی کے کسی کام میں صرف کرنا موزوں سمجھیں تو وہاں صرف کر دیا جائے اور اس بات کی پابندی نہ کی جائے کہ اسے صرف دونوں منصفوں یا حاضرین مجلس صلح ہی کےلیے ذبح کیا جائے۔ ان ذبیحوں کا حکم ان قربانیوں کا نہیں ہے جنہیں غیر اللہ کے لئے مثلاً بتوں کے نام پر یا نیک لوگوں کی قبروں کے پاس یا کسی جن وغیرہ کیلئے ان کے تقرب کے حصول یا قضاء حاجت کی امید یا دفع حضرت یا حصول منفقعت وغیرہ کے لئے ذبح کیا جاتا ہے۔ ممانعت کی صورت میں یہ ذبیحہ دین میں بدعت اور ایسی شریعت سازی کی قبیل میں سے ہوگا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا اور اس طرح یہ حدیث (لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ) (غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے والے پر اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے) کی نسبت اس آیت کے معنی کے زیادہ قریب ہے: ﴿ اتَّخَذوا أَحبارَ‌ہُم وَرُ‌ہبـٰنَہُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّہِ...﴿٣١﴾... سورة التوبة ’’انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سو ارب بنا لیا‘‘۔ اگرچہ یہ دونوں عمل ہی ضلالت و گمراہی اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص462
Flag Counter