Maktaba Wahhabi

87 - 260
حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ہی ایسے دروغ گو اور کذاب لوگوں کے فتنہ سے بچنے کی تاکید فرمادی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا ’’آخری زمانے میں ایسے دجال اور جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لے کر آئیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے، پس ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کرنے پائیں اور فتنوں میں مبتلا نہ کریں۔[1] لہٰذا جہاں تک موضوع احادیث کا تعلق ہے انہیں توبلا تامل ردکر دینا چاہئے اور کسی صورت ان پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ ضعیف احادیث کے بارے میں بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ترغیب (نیکی کی رغبت دلانا) و ترہیب (گناہوں سے ڈرانا) اور فضائل و مناقب جیسے موضوعات میں ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمیں درج ذیل وجوہات کی بناء پر اس موقف سے اتفاق نہیں۔ 1 ضعیف احادیث سے استفادہ کا دروازہ اگر ایک دفعہ کھول دیا جائے ، خواہ اس کی وجہ بظاہر انتہائی بے ضرر ہی کیوں نہ ہو، تو پھر اسے بند کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ہم میں سے بعض ترغیب و ترہیب یا فضائل و مناقب کے بارے میں ضعیف احادیث پر عمل کو جائز سمجھیں گے تو بعض مسائل اور احکام کے بارے میں ضعیف احادیث پر عمل کو جائز سمجھیں گے اور کچھ لوگوں کو عقائد کے معاملے میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کا جواز مل جائے گا۔ اس صورتحال میں عقائد و ایمان اورپھر مسائل و احکام کے معاملہ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے والوں کو روکنے کا جواز کیا ہوگا؟ پس امت میں ضعیف احادیث کی وجہ سے پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس دروازے کو سرے سے کھولا ہی نہ جائے اور اسے مکمل طور پر بند رہنے دیا جائے۔ 2 دوسری اہم بات یہ ہے کہ ذخیرہ احادیث میں عقائد و ایمان اور مسائل و احکام کے ساتھ ساتھ ترغیب و ترہیب اور فضائل و مناقب کے بارے میں صحیح اور حسن درجہ کی احادیث اس کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ اگر انسان ان احادیث پر پوری طرح عمل کرلے تو اس کی نجات کے لئے ان شاء اللہ وہی کافی ہیں۔ صحیح اور حسن درجہ کی احادیث کی موجودگی میں ضعیف احادیث لینے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟
Flag Counter