Maktaba Wahhabi

1829 - 2029
بینکوں کے حصص خریدنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بینکوں کے حصص خریدنے اورپھر ایک مدت کے بعد ان کے فروخت کردینے کے بارے میں کیا حکم ہے جب کہ اس طرح ایک ہزارکے تین ہزار بن جاتے ہیں،کیا اسے سودقراردیا جائے گا؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بینکوں کے حصص کی خریدوفروخت جائز نہیں کیونکہ یہ نقدی کے ساتھ بیع ہے اوراس میں تساوی اورقبضہ میں لینے کی شرط مفقود ہےاوپھر بینک سودی ادارے ہیں ان کے ساتھ تعاون اوران کے ساتھ بیع وشراء (خریدوفروخت ) کا معاملہ جائز نہیں ہے ۔ ارشادباری تعالی ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَیٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدۃ۲/۵) ‘‘نیکی اورپرہیزگاری کےکاموں میں ایک دوسرےکی مددکیاکرواورگناہ اورظلم کےکاموں میں مددنہ کیاکرو۔’’ اورحدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے ،کھلانے اوراس کے لکھنے والے اوراس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اورفرمایاکہ وہ سب (گناہ میں) برابرہیں’’ (صحیح مسلم( آپ صرف اپنے اصل زرہی کو لے سکتے ہیں۔آپ کےلئے اورآپ کے علاوہ دیگر مسلمانوں کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ تمام سودی معاملات سے اجتناب کریں اورجو کچھ قبل ازیں ہوچکا اس سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں کیونکہ سودی معاملات اللہ سبحانہ وتعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ ہیں اور اللہ تعالی کے غضب وعقاب کا باعث ہیں ،ارشادباری تعالی ہے: ﴿الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الرِّ‌بَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّ‌بَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـہُ الْبَیْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا ۚ فَمَن جَاءَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّہِ فَانتَہَیٰ فَلَہُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُ‌ہُ إِلَی اللَّـہِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥ یَمْحَقُ اللَّـہُ الرِّ‌بَا وَیُرْ‌بِی الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّـہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ‌ أَثِیمٍ (البقرۃ۲/۲۷۵۔۲۷۶) ‘‘جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن (شیطان) نے لپٹ کردیوانہ بنادیا ہو،یہ اس لئےکہ وہ کہتے ہیں کہ سودابیچنابھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویساہی ہے جیسے سود (لینا) ہےحالانکہ سودے (تجارت) کو اللہ نے حلال قراردیا ہے اورسودکوحرام ،جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اوروہ (سودلینے سے) بازآگیاتوجوپہلے ہوچکا وہ اس کا،اور (قیامت کے دن) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔اورجوپھرلینے لگاتوایسے لوگ دوزخی ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے ) رہیں گے۔اللہ سود کو مٹاتا ہے اورصدقات (خیرات) کوبڑھاتا ہے اوراللہ کسی نہ شکرے گناہ گارسے محبت نہیں رکھتا۔’’ اورفرمایا: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـہَ وَذَرُ‌وا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّ‌بَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْ‌بٍ مِّنَ اللَّـہِ وَرَ‌سُولِہِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (البقرۃ۲/۲۷۸۔۲۷۹) ‘‘مومنو!اللہ سے ڈرواوراگرایمان رکھتے ہوتوجتنا سودباقی رہ گیا ہے۔اسےچھوڑدواوراگرایسا نہیں کروگے تواللہ اوراس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیارہوجاواوراگر توبہ کرلوگے (اورسودچھوڑ دو گے) توتم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے نہ تم ظلم کرو اورنہ تم پر ظلم کیا جائے (یعنی ) جس میں نہ اوروں کا نقصان ہواورنہ ہی تمہارانقصان۔’’     مقالات وفتاویٰ ابن باز صفحہ 318 محدث فتویٰ
Flag Counter