دفتر/دکان/مزدوری کے لئے =10گھنٹے متفرق ذمہ داریوں کے لئے =4گھنٹ (متفرق ذمہ داریوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت،علاج معالجہ،گھر کا سودا سلف،دوست احباب سے ملاقاتیں،اعزہ اقارب کی خوشی اور غمی کے موقع پر شرکت سبھی کچھ شامل کر لیجئے) چوبیس گھنٹوں میں سے چار گھنٹے ٹی وی کی نذر کرنے والا شخص اگر ساٹھ سال کی عمر پاتا ہے تو وہ ساٹھ سال کی عمر میں سے مکمل دس سال ٹی وی کی نذر کرتاہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد مبارک ہے ’’قیامت کے روز جب تک آدمی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب نہیں دے پائے گا اس کے پاؤں اللہ کی بارگاہ سے ہٹنے نہیں دیئے جائیں گے۔‘‘(ترمذی)مسلسل نو،دس سال کے گناہوں اور نافرمانیوں کا حساب ہم کیسے دے پائیں گے،ٹی وی نے یہ سوچنے کے لئے ہمارے پاس وقت ہی کہاں چھوڑا ہے؟وقت کی قدروقیمت ہمیں اس روز ہوگی جب ایک شخص روئے زمین کے برابر سونا،چاندی صدقہ کرکے اللہ تعالیٰ سے ایک لمحہ طلب کرے گا۔جس میں وہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہہ سکے لیکن اسے وہ ایک لمحہ بھی نہیں دیا جائے گا۔ (مفہوم حدیث شریف) 8 حقوق العباد میں تقصیر: ٹی وی کے نشے نے ہمیں اس قدر مدہوش کررکھاہے کہ ہر آدمی اپنی ذات کے گنبد میں بند ہے اورگھر کے ہر فرد نے اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے جس سے باہر جھانکنے کے لئے اسے فرصت نہیں۔ گھر میں موجود دادا، دادی یانانا، نانی یا کوئی دوسرے بزرگ ہمارے ٹی وی دیکھنے کو برا تو نہیں سمجھتے؟گھر میں آنے جانے والے مہمانوں کی خاطر خواہ میزبانی ہوتی ہے یا نہیں؟ہمارے گردوبیش میں ہمسائے مرتے ہیں یا جیتے ہیں؟ہمارے دور پار کے رشتہ دار کسی توجہ یا تعاون کے مستحق تو نہیں؟گلی یا محلے میں کوئی بیوہ یا یتیم نان جویں کا محتاج تو نہیں؟کوئی غریب یا مسکین اپنے کسی بیمار بچے کی دوا کے لئے تو نہیں ترس رہاہے؟ٹی وی کے نشے نے اتنی ہوش ہی کہاں رہنے دی ہے کہ ہم ان’’غیر ضروری‘‘باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔ 9 حقوق اللہ میں تقصیر: اوپر دیئے گئے گوشوارے پر ایک نظر ڈالئے اور غور فرمائیے ٹی وی دیکھنے اور سننے والے گھرانوں میں |