Maktaba Wahhabi

64 - 260
ٹی وی کی اولاد و احفاد…ڈش ، ویڈیو اور انٹر نیٹ وغیرہ …نے ہمارے معاشرے کو جس بے حیائی اور فحاشی کے اندھے کنویں میں پھینک دیا ہے اس کا اندازہ درج ذیل خبر سے لگا لیجئے ’’راولپنڈی کے ایک نیٹ کیفے میں خفیہ کیمروں کے ذریعہ گندی سائٹس دیکھتے ہوئے بعض نوجوان جوڑوں کی سی ڈیز تیار کی گئیں جنہیں چار پانچ ہزار روپے فی سی ڈیز بازار میں فروخت کیا جاتا رہا جب اس کا علم متعلقہ خاندانوں کو ہوا تو اس سکینڈل کا شکار ہونے والی تین لڑکیوں نے خود کشی کرلی ایک کو اس کے والد نے قتل کردیا۔‘‘ [1] موبائل کے فتنہ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ موبائل سے پہلے گھروں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میں ناجائز تعلقات قائم کرنے میں بہت سی دشواریاں محسوس کرتے تھے۔ تمام تر احتیاط کے باوجود ٹیلی فون کال گھر کے کسی دوسرے فرد کے سن لینے پر راز فاش ہوجانے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا تھا اوراولاد کو والدین کی روک ٹوک اور سرزنش کا ہر وقت خوف رہتا تھا۔ موبائل نے اس قسم کی ساری رکاوٹیں دور کردی ہیں۔ والدین کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور گھروں کے اندر ایسے ایسے المناک واقعات جنم لینے لگے ہیں کہ والدین سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ یہ اور حیا سوز کلچر کیسے پیدا ہورہا ہے اور کون کررہا ہے؟ام الفتن ٹی وی! 6 جرائم کا فروغ: نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ٹی وی پر مار دھاڑ،قتل وغارت،چوری،ڈاکہ،اغواء،شراب،زنا،جوا، دھوکہ دہی اور فراڈ وغیرہ پر مبنی فلمیں دیکھتے ہیں تو خود بھی ان کی نقالی کرنے لگتے ہیں۔بعض پڑھے لکھے اور اونچے مناصب پر فائز حضرات کی اولادوں کا ایسے جرائم میں ملوث ہونا اسی شوق نقالی کا نتیجہ ہے۔ 7 وقت کا ضیاع: ایک سرسری جائزے کے مطابق ٹی وی کے شوقین حضرات روزانہ اوسطاًچار گھنٹے ٹی وی کی نذر کرتے ہیں ایک عام آدمی کے روزمرہ معمولات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر چوبیس گھنٹوں کا گوشوارہ بنایا جائے تو درج ذیل گوشوارے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ ٹی وی کے لئے =4گھنٹے نیند کے لئے =6گھنٹے
Flag Counter