Maktaba Wahhabi

63 - 260
4 فیشن پرستی: ٹی وی پر آنے والے لوگ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ پر کشش اور خوبصورت بنانے کے لئے نت نئے فیشن اختیار کرتے ہیں اوروہی رنگ ،ڈھنگ ساتھ ساتھ ناظرین بھی اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں اسلامی اقدار ملیا میٹ اور جاہلانہ اقدار معاشرے پر چھاتی چلی جارہی ہیں ٹی وی پر آنے سے پہلے کسی بھی خاتون کا حجاب کے بغیر گھرسے نکلناسخت معیوب سمجھاجاتاتھا۔ ٹی وی آنے کے بعد پہلے حجاب ختم ہوا پھر سر سے چادر غائب ہوئی ، پھر سر سے دوپٹہ گیاپھر دوپٹے سے بنی ہوئی رسی گلے سے غائب ہوئی پھر نصف آستین والی قمیصوں کا رواج ہوا۔اب بغیر آستین کے قمیصوں کا رواج عام ہے۔ فیشن پرستی کے لئے بیوٹی پارلر،ہیئر ڈریسر، پولی کلینک سنٹرزاب گلی گلی ، محلہ محلہ میں موجود ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’کچھ عورتیں لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں مردوں کو بہکانے والی،اور خود بہکنے والی ایسی عورتیں جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکیں گی۔‘‘(مسلم) 5 حیا سوزی: بالغ اور نابالغ اولاد کا اپنے والدین کے ساتھ مل کر ٹی وی پر بنے ٹھنے مردوزن کا آزادانہ میل جول دیکھنا،عشق ومحبت پر مبنی ڈرامے اور فلمیں دیکھنا،شہوانی جذبات کو بھڑکانے والے گانے سننا،مردوزن کے نیم عریاں اور اخلاق باختہ مناظر دیکھنابچوں میں موجود طبعی شرم وحیاکو ختم کردیتاہے۔ٹی وی سے پہلے لڑکیاں تو کیا لڑکوں کو بھی اپنے رشتہ مناکحت کے سلسلے میں والدین کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، لیکن ٹی وی کی آمد کے بعد اب لڑکیاں بھی کھلے الفاظ میں والدین کے سامنے بے تکلف اظہار کرتی ہیں کہ میں فلاں سے نہیں فلاں سے شادی کروں گی اگر والدین کبھی’’ نافرمانی‘‘ کا راستہ اختیار کرنے کی غلطی کربیٹھیں تو بیٹیاں اپنے آشناؤں کے ساتھ فرار ہونے ،عدالتوں سے نکاح کی ڈگری حاصل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے جب بالغ بیٹیاں اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر ’’تکلف برطرف ہم تو سربازار ناچیں گے‘‘ کی تعلیم حاصل کریں گی تو پھر انہیں رشتہ مناکحت میں اپنی مرضی پوری کرنے سے روکنے کی جرأت کون کرے گا؟
Flag Counter