پیشہ وکالت کا شرعی حکم کیا ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ زید پیشہ وکالت کو انجام دیتا ہے۔بکر اس پر یہ الزام لگاتا ہے کہ پیشہ وکالت کی مذہباً سخت ممانعت ہے۔بلکہ حرمت کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔لہذا ترک کر دیا جائے۔پس ایسی صورت میں بروئے قرآن وحدیث شریف میں آیا فی الواقعی پیشہ وکالت بموجب قول بکر مذہباً ناجائز و قابل ترک ہے۔اگر ہے تو کس شرط کے ساتھ اگر نہیں ہے تو کسی طرح بصراحت و تفصیل اس فتاویٰ کو اخبار اہل حدیث میں شائع فرما کرآپ عند اللہ ماجور ہوں۔وعند الناس مشکور ہوں۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! پیشہ وکالت کی دو حیثیتیں ہیں۔اصل منصب وکیل۔دوم طریق عمل۔منصب وکیل ہے تو یہ کہ عدالت کو صحیح قانونی مشورہ دے۔اس منصب کے لہاظ سے تو جائز کاموں میں وکالت جائز ہے۔الا ان مقدمات میں جن میں قانون ہی خلاف شریعت ہے۔مثلاً دیوانی میں معیاد قرضہ ما فوجداری میں شراب ۔خمر۔اور زنا کا جواز۔ایسے مقدمات میں بپا بندی قانون پیروی کرنا بھی خلاف شریعت ہے حق یہ ہے کہ طریق عمل نے اس پیشے کو بہت کچھ مورود الزام بنایا ہے۔جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں نہ مناسب ہے۔ درخانہ اگر کس است یک حرف پس است (فتاویٰ ثنائیہ۔جلد2 صفحہ 219) فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 77 محدث فتویٰ |
Book Name | اجتماعی نظام |
Writer | متفرق |
Publisher | متفرق |
Publish Year | متفرق |
Translator | متفرق |
Volume | متفرق |
Introduction | فتاوے متففرق جگہوں سے ، مختلف علما کے، مختلف کتابوں سے نقل کئے گئیے ہیں۔ البتہ جمع و ترتیب محدث ٹیم نے ، تصحیح و تنقیح المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر نے کی ہے |