Maktaba Wahhabi

1526 - 2029
(351) بولی والی کمیٹی کی آمدنی حرا م ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کوئی شخص خطبہ ا امامت کے فرائض سر انجام دیتا ہے اور تجارت بھی کرتا ہے ۔ اس بازار میں دکانداروں نے  کمیٹی ڈالی ہے ۔ جس کو  بولی والی کمیٹی کہتے ہیں یعنی ہر مہینہ اس کی رقم کی بولی ہوتی ہے اور ا س منافع کو ممبران کمیٹی پر تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔اس  خزانچی  کے پاس امام صاحب مذکور بھی کمیٹی جمع کرواتے ہیں لیکن وہ اس منافع کو غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں  اور منافع نہیں لیتے ۔ جتنی رقم جمع کرواتے ہیں پوری پوری رقم  خزانچی سے وصول کرتے ہیں اس شکل میں اس امام کے پیچھے جمعہ نماز پڑھنا  جائز ہے یا  نہیں  ۔ (سائل : رانا مشتاق احمد  چھانگا مانگا ضلع قصور )  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بشرط صحت سوال و بشرط  صحت واقعہ بولی والی کمیٹی کی مذکورہ صورت تو واضح طور پر سود کے حکم میں ہے جو سرا سر حرام اور ناجائز  اور  باطل کی ایک صورت ہے ۔جس سے اجتناب اور گریز لازم ہے ۔ البتہ دوسری صورت  یعنی جب کہ اس خزانچی کے پاس اپنی رقم بطور امانت برائے بچت جمع کروائی جائے اور بولی کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم سے حصہ نہ وصول کیا جائے بلکہ اس کو حرام سمجھا جائےاور صرف اپنی باری آنے پر اپنی ہے جمع شدہ رقم وصول کی جائے  تو یہ صورت جائز ہے ۔ جیسا کہ سراسر سودی بینک کے کرنٹ کھاتہ میں حفاظت کی نیت سے پیسہ جمع کروانا جائز ہے تو ایسے یہ دوسری صورت بھی جائز معلوم ہوتی ہے ۔اور ایسے امام کی اقتدا میں جمعہ نماز پڑھنا بلا شبہ جائز اور درست ہے کیونکہ اس نے تواپنی جائز بچت کی غرض سے اس کمیٹی میں شرکت کی ہے ۔نیز بولی کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم کو منافع کہنا بھی صحیح نہیں بلکہ وہ سراسر سود کی صورت ہے ۔  ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ محمدیہ ج1ص667
Flag Counter