Maktaba Wahhabi

441 - 2029
عورتوں کو رشتہ داروں کو بوسہ دینا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میں آج کل ریاض شہر میں رہتا ہوں اور یہاں میرے رشتہ دار بھی رہتے ہیں ، جو انتہائی قریبی ہیں ۔ مثلاً میری خالہ کی بیٹیاں ، میرے چچاؤں کی بیویاں اور ان کی بیٹیاں ۔ میں جب کبھی انہیں ملنے جاتا ہوں تو انہیں سلام کہتا ہوں ۔ وہ مجھے بوسہ دیتی اور میرے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور پردہ نہیں کرتیں اور میں اس طور طریقہ سے تنگی محسوس کرتا ہوں ۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جنوبی ممالک میں یہ عادت اکثر اور عام ہے۔ اس عادت کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں اور میں اس بارے میں کیا کروں ؟ مجھے مستفید فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ (عائض۔ ا)  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! یہ عادت بری، منکر اور شریعت مطہرہ کے خلاف ہے۔ آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ انہیں بوسہ دیں یا ان سے مصافحہ کریں ۔ کیونکہ چچاؤں کی بیویاں ، چچا کی اور ماموں کی بیٹیاں آپ کے لیے محرم نہیں ہیں ۔ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ سے پردہ کریں اور اپنی زینت کو آپ پر ظاہر نہ کریں ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں : {وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ} (الاحزاب: ۵۳) ’’اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں ) سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہی بات تمہارے ان کے دلوں کے لیے پاکیزہ ہے۔‘‘ اور علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق یہ آیت نبی کی بیویوں اور دوسری سب عورتوں کو عام ہے اور جو شخص یہ کہے کہ یہ آیت صرف نبی کی بیویوں سے مختص ہے تو اس کا قول باطل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورہ نور میں عورتوں کے بارے میں فرماتا ہے: {وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَوْ آبَائِہِنَّ اَوْ آبَائِ بُعُولَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَائِہِنَّ اَوْ اَبْنَائِ بُعُولَتِہِنَّ} (النور: ۳۱) ’’اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں ، اپنے باپوں اور خاوندوں کے باپوں کے لیے…‘‘ اور آپ ان مستثنیٰ کردہ لوگوں میں سے نہیں ہیں ۔ بلکہ آپ اپنے چچا اور ماموں کی بیٹیوں اور چچاؤں کی بیویوں کے لیے اجنبی ہیں ۔ یعنی ان کے محرموں سے نہیں ہیں ۔ لہٰذا آپ پر واجب ہے کہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے انہیں باخبر کریں اور یہ فتویٰ انہیں پڑھ کر سنائیں تاآنکہ وہ آپ سے معذرت کریں اور اس معاملہ میں شرع کا حکم جان لیں اور آپ انہیں بس سلام کہہ دیا کریں ۔ بوسہ دینا، لینا یا مصافحہ ہرگز نہ کریں ۔ جیسا کہ ہم نے آیات کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ اور نبیﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے بھی کہ جب ایک عورت نے آپ سے مصافحہ کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا: ((انِّی لَا اُصافحُ النِّسَائَ)) ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا۔‘‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کی وجہ سے بھی ’’رسول اللہﷺ کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ آپ صرف کلام سے ہی عورتوں کی بیعت کیا کرتے تھے۔‘‘ نیز صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق واقعہ افک مذکور ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ ’’جب میں نے صفوان بن معطل کی آواز سنی تو میں نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور حجاب کا حکم نازل ہونے سے پیشتر اس نے مجھے دیکھا تھا۔‘‘ (یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آیت حجاب نازل ہونے کے بعد عورتیں اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کرتی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے اور دین میں سمجھ عطا فرمائے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔   فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلداول -صفحہ 187
Flag Counter