Maktaba Wahhabi

1712 - 2029
فاحشہ عورت جو زنا کی کمائی سے گزارہ کرتی ہے...الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک بازاری عورت فاحشہ جو زنا کی کمائی سے گزاراکرتی ہے۔مسجد میں تیل ڈالتی ہے۔اور اس کو اپنے گناہوں کا کفارہ خیال کرتی ہے۔کیا یہ عمل اس کے گناہوں کا کفارہ ہوسکتا ہے۔اور کیا اس صریحا ًناپاک کمائی کا تیل دوسرے لوگوں کی مسجد میں ڈالے ہوئے تیل میں شامل ہو کر مسجد میں نماز و تلاوت قرآن شریف کے واسطے شرعا ًاستعمال ہو سکتا ہے۔کیا امام مسجد یا کوئی اور حاضر الوقت مسلمان اس فاحشہ عورت کو تیل ڈالنے سے روک دے۔اور اگر وہ عورت نہ رکے تو ایسی صورت میں متولی مسجد کو کیاکرنا چاہیے۔قرآن و حدیث سے جواب مطلوب ہے۔اور اس سوال کے جس قدر پہلو یا حصے ہیں۔ان میں سے جواب دیتے وقت کوئی بھی نظر انداز نہ کیا جاوے؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بحکم حدیث  مہر البغی خبیث (مشکواۃ باب الکسب)زانیہ کی کمائی حرام ہے۔اور بحکم حدیث( لا تقبل الاالطیب(ایضاً باب الکسب) حرام کمائی قبول نہیں یعنی اس کا ثواب مطلق کوئی نہیں دونوں حدیثوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔کہ ایسے تیل سے انفراد ایا ددسرے سے لا کر بھی کسی طرح اس کو مسجد میں جلوانا یا اس سے فائدہ اُٹھانا حلال نہیں۔ہر ایک شخص مسلمان کا فاحشہ عورت کوروکنے کا اسی طرح حق ہے جس طرح کتے اور سور کو مسجد میں آنے سے روکنے کا حق ہے۔اگر نہ روکے تو متولی اس کے تیل کو نالی میں پھینک دے۔جیسے کہ ایک حدیث میں ایک نومسلم کے بارے میں آیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔تیرا ایمان تو قبول کرتا ہوں لیکن تیرا مال قبول نہیں کرتا ۔(اہل حدیث امرتسر 3 رجب سن1337ھ) (فتاوی ثنائیہ۔جلد2 391۔392)   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 110 محدث فتویٰ
Flag Counter