Maktaba Wahhabi

1251 - 2029
(622) پانچ موذی جانور السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ  میں نے ’’الفواسق الخمس ‘‘ کے الفاظ سنے ہیں ، ان کے کیا معنی ہیں ؟ کیا ہمیں یہ حکم ہے کہ ان کو عمل کردیں حتی کہ حرم میں بھی قتل کردیں ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! پانچ موذی چیزوں سےمراد ہیں (1) چوہیا ۔2۔ بچھو۔3۔باؤلا کتا ۔4۔ کوا اور ۔5۔چیل ۔ یہ وہ پانچ جانور ہیں ،جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : " خَمْسٌ فَوَاسِقُ، یُقْتَلْنَ فِی الحَرَمِ (صحیح البخاری ،جزاء الصید ، باب ما یقتل المحرم من الدواب ، ح : 1829 وصحیح مسلم ، الحج ، باب ما یندب للمحرم وغیرہ قتلہ من الدواب فی الحل والحرم ، ح : 1198 واللفظ لہ ) "پانچ چیزیں موذی ہیں ، انہیں حل وحرم میں ہلا ک کردیاجائے ۔‘‘ لہذا انسان کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ ان پانچ چیزوں کو قتل کرے خواہ اسنے احرام باندھنا ہو یانہ باندھا ہو اور خواہ وہ حدود حرم کے اندر ہو یا باہر کیونکہ بعض اوقات یہ ایذاء اور نقصان پہنچانے کا باعث  بنتی ہے اور ان پانچ چیزوں پر ان کو بھی قیاس کیا جائے گا جو ان جیسی ہو یا ان سے بھی زیادہ انذاء اور نقصان پہنچانے والی ہوں ۔ البتہ گھروں میں آجانے والے سانپوں کو اس وقت تک قتل نہ کیا جائے ،جب تک ان سےتین بار یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ جن ہوں ۔ البتہ ان میں سے چھوٹے اورزہریلے سانپ اور خبیث قسم کے سانپ کو ہر جگہ قتل کیا سکتاہے خواہ وہ گھروں ہی میں کیوں نہ ہوں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتبر اور ذوالطفیتین کے سوا دیگر سانپوں کےقتل کرنے سےمنع فرمایا ہے ۔ ابتر سے مراد وہ سانپ ہے جس کی دم چھوٹی ہو اور ذوالطفیتین سے مراد وہ ہے جس کی پشت پر دو سیاہ لکیریں ہوں ۔ ان دونوںقسم کے سانپوں کو ہر جگہ اور ہر حال میں قتل کیاجاسکتاہے ، ان کے سوا دیگر سانپوں کو تین بار وارننگ دئے بغیر قتل نہ کیا جائے ۔ وارننگ اسطرح دی جائے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ،میں تمہیں اپنے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا ، اس طرح کا کوئی اورکلمہ کہا جائے جس سے معلوم ہو کہ آپ  اسے ڈرا کر بھگا رہے ہیں اور اپنےگھر میں رہنے کی اجازت نہیں دے رہے اور اس کےبعد بھی اگر وہ گھر میں رہے تو وہ جن نہیں ہے یا اگر وہ جن ہو تو اس کے بعد اس کا خون رائیگا ں ہے لہذا اسے قتل کردیا جائے اور اگر اس حالت میں وہ زیادتی کرے تو اسے دور ہٹایا اور اپنا دفاع کیا جاسکتاہے خواہ پہلی مرتیہ ہی ایسا ہو ۔اگر اپنے دفاع کے نتیجہ میں وہ قتل ہو جائے یا قتل کے بغیر اس سے ایذاء سے بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہو تو اسےقتل کردیا جائے کیونکہ یہ اپنی جان کےدفاع کے باب سے ہوگا ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص471
Flag Counter