Maktaba Wahhabi

1896 - 2029
بنک سے سود لے کر کسی غریب کو دیا جا سکتا ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ براکل مغربی جرمنی سے محمد اشفاق نعیم پوچھتے ہیں جرمن میں بینکوں کا ایک اصول ہے کہ اگر کسی آدمی  کی رقم نارمل اکاؤنٹ یعنی بغیر سودی اکاؤنٹ میں ایک سال تک پڑی رہے تو بینک والے پانچ فیصد منافع دیتےہیں جب کہ سودی اکاؤنٹ میں ۱۱’۱۲’ اور ۱۴ فیصد تک منافع دیا جاتاہے یہ منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ منافع اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے پاکستا ن میں کسی غریب آدمی کو دے دیا جائے یا تحفہ وغیرہ دے دیا جائے تو یہ درست ہے یا نہیں؟ یا یہ پانچ فیصد بینکوں سے لیا ہی نہ جائے۔ اگر لے گیا ہوتو اس کا کیا کیا جائے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بینکوں سے سود کی رقم وصول کرنے کے بارے میں ایک فتویٰ ‘‘ صراط مستقیم’’ کی فروری کی اشاعت میں آچکا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ منافع پانچ فی صد ہو یا چودہ فیصد وہ بہرحال سود ہے اس لئے اس کا وصول کرنا یا لے کے آگے تقسیم کرنا بنیادی طور پر جائز نہیں۔ ہاں اگر لاعلمی سے رقم پر سود بن گیا تو اسے لے کر مستحق لوگوں کو دے دیا تو بعض علماء نے اس کی اجازت دی ہے لیکن اس کی عادت  بنا لینا یا اس کو بنیاد بنا کر سود کی رقم کی وصولی شروع کردینا جائز نہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ صراط مستقیم ص514 محدث فتویٰ
Flag Counter