وکسریٰ اپنے ملکوں میں بیٹھے خوفزدہ تھے۔ 622ء میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی تسخیر کے لئے لشکر بھیجا جس میں اسی سالہ بوڑھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ دوران مہم اللہ کو پیارے ہوگئے ، چنانچہ انہیں سرزمین عدو میں ہی دفنا دیا گیا۔ قیصر روم کو خبر ملی تو اس نے اعلان کیا کہ اسلامی لشکر کی واپسی کے بعد میں میت کی ہڈیاں قبر سے نکال کر باہر پھینک دوں گا ، قیصر کے اس گستاخانہ اعلان پر امیر لشکر نے جواب دیا ’’اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ کی قسم ! یاد رکھ مسلمانوں کی وسیع و عریض سلطنت میں جتنے بھی گرجے ہیں ان سب کو منہدم کردیا جائے گا اور سارے عیسائیوں کی قبروں کو اکھاڑ پھینکاجائے گا۔‘‘ قیصر نے جب یہ جواب سنا تو فوراً پیغام بھیجا ’’میں تو محض تمہاری دینی غیرت اور حمیت کا امتحان لے رہا تھا ، کنواری مریم کی قسم ! ہم تمہارے نبی کے صحابی کی قبر کا احترام اور حفاظت کریں گے۔‘‘عہد صحابہ کے بعدجیسے جیسے مسلمانوں کا قرآن مجید سے اعراض بڑھتا گیا ویسے ویسے ان کی ذلت اور رسوائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ قرآن مجید کے ساتھ آج ہمارے اعراض کا حال یہ ہے کہ سکولوں کے نصاب میں پہلے سے جو چند قرآنی سورتیں موجود تھیں وہ بھی حکومت نے زبردستی نکلوادی ہیں۔عقیدہ توحید، عقیدہ ختم نبوت ، جہاد، حجاب ، شرعی حدود، تعداد ازدواج اور خاندانی نظام سے متعلق قرآن مجید کی آیات سے حکومت سخت پریشان ہے کہ کیسے ان سے (معاذاللہ) جان چھڑائی جائے۔ نصاب تعلیم کو مکمل طور پر سیکولر بنانے کے لئے آغاخان بورڈ جیسے ملحد ادارے کو سارے ملک کے نظام تعلیم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن مدارس میں قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان مدارس کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے کبھی ان پر چھاپے مارے جاتے ہیں کبھی ان کے وسائل محدود کرنے کا قانون بنایا جاتا ہے کبھی انہیں دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت کے کنٹرول میں موجود ذرائع ابلاغ کو فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے لئے تودن رات کے چوبیس گھنٹے میسر ہیں۔ اگر نہیں تو قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کرنے کا وقت میسر نہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں ہر طرح کا نصاب پڑھانے کے لئے اساتذہ میسر ہیں اگر نہیں تو قرآن مجید پڑھانے کے لئے قراء میسر نہیں۔ عوامی سطح پر قرآن مجید سے اعراض کا حال یہ ہے کہ گھروں اور دکانوں سے، کھیتوں اور کھلیانوں سے ،تفریح گاہوں اور پارکوں سے ، ویگنوں اور بسوں سے ہر وقت غلیظ ، گندے اور لچر گانوں کی بے ہنگم |