( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں سے زیادہ ہدایت یافتہ اور اعلیٰ دین پر ہو۔‘‘ یہ انداز فکر نتیجہ ہے اس شیطانی تسلط کا جس میں شیطان حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر دکھاتا ہے۔ آج بھی قرآن مجید سے اعراض کرنے والوں کو شیطان نے اسی فریب میں مبتلا کر رکھا ہے ، لہٰذا وہ حجاب کو جہالت اور بے حجابی کو ترقی پسند ی سمجھتے ہیں، مخلوط محافل کو روشن خیالی اور غیر محرم مردوں اورعورتوں میں علیحدگی کوتنگ نظری کی علامت سمجھتے ہیں، ستر کو رجعت پسندی اور عریانی کو تہذیب جدید تصور کرتے ہیں، اسقاط اور ہم جنس پرستی جیسے افعال قبیحہ کو حقوق انسانی میں شمار کرتے ہیں اور قانون تعدد ازواج کو پسماندگی کی علامت قرار دیتے ہیں رقص وسرود اور موسیقی کو روح کی غذااور شرم وحیا کوتاریک خیالی سمجھتے ہیں شرعی سزاؤں کو غیر مہذب اور فحاشی اور بے حیائی کواعتدال پسندی سمجھتے ہیں،جہاد کو دہشت گردی اور دہشت گردی کو جہاد سمجھتے ہیں۔ ذلت اور رسوائی کو رواداری سمجھتے ہیں ، عزت اور وقار کے راستے کو حماقت اور بے وقوفی کا راستہ سمجھتے ہیں۔در حقیقت یہ لوگ بھی اِعراض قرآن کے جرم میں اُسی سزا میں مبتلا ہیں جس میں شیطان ہر برائی کو نیکی اور نیکی کو برائی بنا کر دکھاتا ہے حتی کہ تباہی اور ہلاکت کے کنارے پر پہنچ کر بھی شیطان اپنے شاگردوں کو یہی باور کراتا ہے ’’برخوردار ! فکر نہ کرو تم جنت کی وادی میں پہنچ رہے ہو۔‘‘ 3 ذلت اور رسوائی : قرآن مجید سے اعراض کی تیسری سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد یا اقوام کو ذلت اور رسوائی سے دوچار کردیتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے : ’’اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو عروج عطا فرماتے ہیں اور بعض لوگوں کو ذلیل اور رسوا کردیتے ہیں۔‘‘ (مسلم) حدیث شریف کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ مسلمانوں کا من حیث القوم زوال اور عروج قرآن مجید سے وابستہ ہے۔ مسلمانوں نے جب بھی قرآن مجید پر عمل کیا تو انہیں عروج حاصل ہوا اور جب قرآن مجید پر عمل کرنا ترک کیا تو ذلیل اور رسوا ہوئے۔ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں قرآن مجید کی تعلیم اور تدریس کا حکومتی سطح پر اہتمام تھا، کلیدی عہدوں پر تقرری کے لئے قرآن مجید کا عالم یا حافظ ہونا سب سے بڑا استحقاق (Merit ) سمجھاجاتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ کے سارے ارکان یا تو حافظ قرآن تھے یا عالم قرآن ،جو تمام امور مملکت قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق چلاتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ چاردانگ عالم مسلمانوں کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا۔ قیصر |