Maktaba Wahhabi

1778 - 2029
ایک دوکاندارنمک تیل وغیرہ کے ساتھ تمباکو سگریٹ بیٹری کی تجارت ..الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک دکاندارنمک تیل وغیرہ کے ساتھ تمباکو سگریٹ بیڑی کی تجارت بھی کرتا ہے کیا اس کی تجارت جائزہے اور اس کی دعوت و صدقہ قبول کرنا جائز ہے ؟ حدیث شریف میں آیا ہے ۔کل مسکر وفی روایة اخری نہی عن کل مسکر ومفتر آیا تمباکو مسکر و مفتر میں شامل ہے۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بعض علماء کے نزدیک تمباکو کھانا اور پینا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ ان کی تحقیق میں تمباکوغیرعادی شخص کے حق میں مفتر(اعضامیں سستی اور ڈھیلاپن پیدکرنےوالااور کوسن اور بےحس کرنےوالا)اور مضر (حواس مختل کردینے والاجسمانی قویٰ وافعال میں فتور وخلل ڈالنے والا،دورانِ سر میں مبتلااور چلنے پھرنے سے بے بس کردینے والا)ہے۔اور حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں:نھی رسول اللہ ﷺ عن کل مسکر ومفتر،مسند احمد ایک دوسری مرفوع روایت میں ہے:الاان کل مسکر حرام وکل مفتر ومخدر حرام،عون المعبود بحوالہ کنزالعمال اور بعض علماء کے نزدیک تمباکو کھانا پینا محض مکروہ ہے حرام اور ناجائز نہیں۔کیوکہ ان کے خیال میں اس کی حرمت و ممنوعیت پر کوئی صریح دلیل موجود نہیں وہ تمباکو کو نہ مسکر میں داخل مانتے ہیں نہ فقر میں۔ اور بعض علماء کرام بلاکراہت اس کے جوا اور اباحت کے قائل ہیں۔ پہلے گروہ کے نزدیک تمباکو کی تجارت ناجائز ہے اور اس کے فاجر کی دعوت و صدقہ قبول کرنابھی نا درست ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔لعن اللہ الیہود حرمت علہمالشحوم فبا عو ہاوا کلوہااثما نہاوان اللہ حرم علی قوم اکل شئ حرم علیہم ثمنہ دوسرے اور تیسرے گروہ کے نزدیک تمباکو کی بیع  وشرا جائز اور مباح ہے۔والقول الراجح عندی ہوقول من ذہب الی عدم اباحة اکل التبغ والتتن والتبناک وشرب د خانہ بالنار جیلا ء وغیرہا لا ضرارہ عاجلاوامابیعہ علی المسلم ان یجتنب منہ لا یتکرث ولا یتلطخ واما من تلطخ بہ واشتغل بتجارتہ واکتسب بہ فلا اقول بحرمة کسعیہ وذلک لا جل اختلا ف العلما ء فیہ فان اختلاف العلماء فی شئ یورث التخفیف فیہ صورت مسؤلہ میں اس کی دکاندار کی تجارت جائز ہے اور اس کی دعوت و صدقہ بھی درست ہے اولا اس لئے کہ وہ تمباکو کے ساتھ دوسری بہت سی غیر مختلف فیہ حلال و جائز چیزوں کی تجارت کرتا ہے ثانیا اس لئے کہ خود تمباکو کے بارے میں علماء مختلف  الرائے ہیں پس اس قدر تشدیدو تغلیط کہ اس کی بیع کو ناجائز و حرام کردیاجائےخلاف احتیاط ہے۔(عبیداللہ رحمانی) (محدث دہلی جلد 9 شمارہ 11( فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 192 محدث فتویٰ
Flag Counter