Maktaba Wahhabi

1733 - 2029
چہ فرمائید علمائے دین و شرع متین کہ بیع بالوفا عند الشارع السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ چہ فرمائید علمائے دین و شرع متین کہ بیع بالوفا عند الشارع جائز است یا نہ بینوا توجروا الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ارباب فطانت و دیانت پر مخفی نہیں کہ رسم و رواج و تعامل بیع الوفا کا قرون ثلاثہ مشہور لہا بالخیر میں نہیں پایا گیا۔بعد مدت دراز قرون ثلاثہ کے چند علمائے متاخرین بخار او سمر قند وغیرہ نے صورتیں بیع الوفا کی اختراع کیں اور نکالی ہیں۔اور قواعد و ضوابط ائمہ اربعہ وغیرہ سے بیع الوفاء کا واضع ہوتا ہے۔اور جس چیز کی اصل شرع سے پائی نہ جاوے۔وہ چیز منہی عنہ اور غیر مشروع قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہوا رد کما اللبخاری وغیرہ من المحدثین ہذاالحدیث معدود وقاعدة من قواعدہ فان معناہ من اخترث فی الدین ما لا یشہد لہ اصل من اصولہ فلا یلتفت الیہ وقال النووی شارح مسلم ہذاالحدیث مما یعتنی بحفظہ واستعمالہ فی ابمطال المنکرات واشاعة الا ستدلال بہ کذالک انتہی ما فی فتح الباری شرح البخاری مختصرا اور باوجود اس احداث و اختراع کے رائے فخر عین کی بھی اس میں مختلف ہے۔اب بیان اختلاف چند علمائے متاخرین مخترعین کا سنو کہ صدر شہیدتاج الاسلام و صدر شہید حسام الدین نے بیع الوفا کو بمنزلہ بیع المکرہ کے گردانا ہے۔حدیث اور دوسری وجہ فساد بیع الوفا کی یہ کہ بیع مذکورہ بشرط فتح و استر داد اور واپسی مبعیہ کے منعقد ہوتی ہے۔حدیث ترجمہ پھر جبکہ عاقدین نے بیع الوفا کے اندر ما قبل اس کے فسخ کو زکر کیا یعنی شرط کیا یا دونوں نے اس کو بیع غیر لازم گمان کیا تو بیع فاسد ہوگی۔حدیث اور ظہیریہ میں ہے کہ اگر شرط مذکور ہوئی بعد عقد کے تو وہ شرط عقد کے ساتھ لاحق ہوگی۔ابو حنیفہ کے نزدیک اور صاحب ظہیریہ نے یہ ذکر نہیں کیا۔کے شرط مجلس عقد میں ہو یا بعد اس کے یہ درمختار میں مذکور ہے۔اور کہا صاحب طحاوی و محشی درمختار نے کہ جب شرط فسخ امام کے نزدیک ملحق عقد سے ہوئی بیع فاسد ہوگی۔اگرچہ بعد مجلس ہو انتھی کلامہ۔ تیسری وجہ فساد کی یہ کہ شرط خیار فسخ کا بیع لوفا میں زیادہ تین دن سے معمول رہا ہے۔اورزیادہ تین دن سے عام ہے۔کہ چاردن زیادہ کہ چار مہینے یا چار برس ہو مثلا حالانکہ شرط خیار فسخ کا بیع میں زیادہ تین دین سے نہیں ہے۔پس اگر زیادہ تین دن سے خیار فسخ کا ہوگا۔تو بیع فاسد ہوگی۔چنانچہ اس بات میں تمام متون و شروع فتاوی حنفیہ مظہر و شاہد ہیں۔اب واضع ہو کہ مجوزین بیع الوفا ء نے اس مسئلہ میں مسلک و مذہب اپنے امام کا چھوڑ کر غیر مسلک امام کا اختیار کیا قطع نظر حدیث مذکورہ بالا سے اور سید امام ابو شجاع و علی الستفدی نے اس بیع مذکور کو رہن قراردیا اور رہن ہونے پر دارومدار رکھا۔اور جب بیع الوفا بدلیل سابق رہن حقیقتاً قرار پایا نزدیک امام حسین ما تریدی و سید ابو شجاع و قاضی علی سفدی کے اور کتاب وثیقہ بیع الوفاء میں شرط نفع لے لینے مشتری اور راہن کے مندرج اور مشروط خالی عن العوض بلا ریب ربا میں داخل ہے۔اور عیاں راچہ بیاہ الخ (فتاوی نزیریہ جلد 2 ص 17۔18) (فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ۔صفحہ 147۔148)   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 121 محدث فتویٰ
Flag Counter