Maktaba Wahhabi

785 - 2029
کیا داڑھی رکھنانبی ﷺ کی سنت ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ داڑھی رکھنانبی ﷺ کی سنت ہے۔ بہت سے لوگ اس کے تارک ہیں۔ کوئی مونڈتا ہے‘ کوئی اس کے بال اکھیڑ دیتا ہے‘ کوئی کاٹ کر چھوٹی کرلیتا ہے‘ کوئی سرے سے اس کا منکر ہے۔ کوئی کہتا ہے ’’ یہ سنت ہے اگر رکھی جائے تو ثواب ہے نہ رکھی جائے تو گناہ نہیں۔ ‘‘ بعض بے وقوف تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر داڑھی اچھی چیز ہوتی تو زیر ناف نہ اگتی۔ (اللہ ان کورسوا کرے) ان مختلف افراد کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور جو شخص نبی کریم ﷺ کی کسی سنت کا منکر ہو‘ اسکا کیا حکم ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جناب رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ داڑھی کو لمبا ہونے دینا اور بڑھانا واجب ہے اور اسے مونڈنایا کاٹنا حرام ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: )قُصُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَی خَالِفُو الْمُشْرِکِینَ) (متفق( ’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ مشرکین کی مخالف کرو۔ ‘‘1 صحیح مسلم اور میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: )جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخوا اللِّحَی، خَالِفُو الْمَجُوْسَ) (مسلم( ’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ‘ مجوسیوں کی مخالفت کرو‘‘2 ان دونوں حدیثوں سے اور اس مفہوم کی اس اور بہت سی حدیثوں میں آتا ہے کہ داڑھی رکھنا اور اسے بڑھانا واجب او راسے مونڈنا او رکاٹنا حرام ہے جیساکہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ داڑھی رکھنا ایسی سنت ہے جس پر عمل کرنے سے ثواب ہوتا ہے اور ترک کرنے سے گناہ نہیں ہوتا تو وہ غلطی پر ہے اور صحیح حدیثوں کی مخالفت کررہا ہے۔ کیونکہ امر (حکم) کا اصل معنی وجوب ہی ہے اور نہی (ممانعت) سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ صحیح حدیث کے ظاہر مفہوم کو ترک کرنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل مل جائے جس سے معلوم ہوکہ اس مقام پر ظاہری معنی مراد نہیں اور مذکورہ بالاحدیثوں کے ظاہری معنی (وجوب) کو ترک کرنے (اور استحباب مراد لینے) کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ جامع ترمذی میں جو حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ داڑھی کے طول اور عرض میں سے کچھ کم کر دیا کرتے تھے۔ 3 وہ حدیث باطل ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔ مذکورہ بالا روایت میں ایک راوی ’’مہتم بالکذب‘‘ ہے یعنی وہ جھوٹ بولا کر تا تھا۔ جو شخص داڑھی کا مذاق اڑاتا اور اسے زیر ناف کے بالوں سے تشبیہ دیتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید یا صحیح حدیث سے ثابت ہونے والے کسی حکم کا مذاق اڑانا کفروارتداد کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہ وَرَسُوْلِہ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْنَ٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ} (التوبة۹/ ۶۵،۶۶) ’’کیا تم اللہ تعالیٰ سے‘ اس کی آیتوں سے اور اس کے رسول سے مذاق کرتے ہو؟ معذرت نہ کرو۔ تم ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے ہو‘‘۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ اللجنة الدائمة۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ (۵۰۴۴) -------------------------------------------- 1 صحیح بخاری‘ کتاب اللباس‘ ب:۲۴/ ح: ۵۸۹۲‘ صحیح مسلم ح: ۲۵۹ 2 صحیح مسلم ح: ۲۶۰۔ 3 جامع ترمذی کتاب الادب‘ ب: ۱۵/ ح: ۲۷۶۳   فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلددوم -صفحہ 33
Flag Counter