Maktaba Wahhabi

126 - 2029
مصافحہ کرنے کا صحیح طریقہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کو ثابت کیا ہے ، لہٰذا سنت طریقہ یہی ہے کہ دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کیا جائے اس کی وضاحت فرمائیں؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں مصافحہ سےمتعلق ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے جس میں اس کا طریقہ نہیں بلکہ مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ شارح صحیح بخاری ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ مصافحہ کی تعریف بایں الفاظ کرتےہیں کہ ایک ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی سےملایا جائے۔ (فتح الباری ،ص:۶۶؛ج۱۱) عربی زبان میں ‘‘صفحہ’’ہاتھ کی ہتھیلی کو کہتے ہیں۔ اس لفظ سےمصافحہ بنا ہے جو باب مفاعلہ ہے اور مشارکت کاتقاضا کرتا ہے ،یعنی دو ہتھیلیوں کا اس عمل میں شریک ہونا مصافحہ کہلاتا ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے کہ مصافحہ ، ہاتھ پکڑنے کو کہتے ہیں۔ جب ایک آدمی کسی دوسرے سے مصافحہ کرتا ہے تو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں رکھ دیتا ہے۔ (ص:۵۱۴،ج ۲) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں دو معلق اور دو موصول احادیث بیان کی ہیں۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں: ٭حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے بایں حالت تشہد کی تعلیم دی کہ میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں میں تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے اس بیان  سے مصافحہ بالیدین کو ثابت کیاجاتا ہے، حالانکہ یہ حدیث ملاقات کےوقت مصافحہ سےمتعلق نہیں ،بلکہ یہ تعلیم کےاہتمام سے تعلق رکھتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مصنف ہدایہ نے اس حدیث کو نماز کےبیان میں ذکر کیا ہے اور حاشیہ میں اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا ہاتھ، اس لئے تھاما تاکہ ان کا دماغ حاضر رہے اور التحیات کی تعلیم دیتے وقت کوئی چیز نہ رہ جائے۔ (حاشیہ نمبر۷ ہدایہ ،ص:۹۳،ج ۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام طور پر عادت مبارکہ تھی کہ دوران تعلیم مخاطب کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے،جیساکہ حضرت ابوقتادہ اور ابو دھماءکہتے ہیں کہ ہم ایک دیہاتی کےپاس آئے اور اس نے ہمیں بتایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اس علم سے کچھ سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطافرمایا تھا۔ (مسند امام احمد ، حدیث نمبر:۲۰۶۲۴) پھر اگر اس حدیث کو مصافحہ کے طریقے کےلئے بطور دلیل تسلیم کرلیا جائے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ بڑا آدمی دونوں ہاتھوں سے اور چھوٹا آدمی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرے، حالانکہ اس انداز کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا، لہٰذا اس حدیث کا مصافحہ کےطریقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٭امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مصافحہ کی مشروعیت کو ثابت کرنے کےلئے دوسرا واقعہ حضرت کعب بن مالک ؓ کا بیا ن کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرماتھے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے انہوں نے مجھ سےمصافحہ کیا اور (میری توبہ قبو ل ہونے پر)مجھے مبارک دی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں واقعات میں ملاقات کا مصافحہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا تعلم کے دوران ہاتھ تھا منا ملاقات کا مصافحہ نہیں ہے۔ *حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سےدریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مصافحہ کا رواج تھا تو آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ (صحیح بخاری ،الاستیذان:۶۲۶۳) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بھی مصافحہ کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔ ٭اس باب کی آخری حدیث میں حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سےبیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےہمراہ تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ (حدیث :۶۲۶۴) اس حدیث میں بھی حضرت عمررضی اللہ عنہ کےا یک ہاتھ کا ذکر ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث میں نہ مصافحہ کا بیان ہے نہ ہی اس میں ملاقات کے وقت مصافحہ کا ذکر ہے۔ اس طرح مصافحہ کا باب مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرا باب بایں عنوان قائم کیا ہے‘‘ دوہاتھ تھامنے کا بیان ’’ اس باب کےمتعلق شارح بخاری مولانا احمد علی حنفی سہارنپوری لکھتے ہیں کہ جب مصافحہ کےبغیر بھی دونوں ہاتھوں کا پکڑنا جائز ہے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کو الگ باندھ دیا ۔ مولانا سہارنپوری کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب کا تعلق مصافحہ سےنہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس باب میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ علیہ کی روایت کو موصولاًلائے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت کا اصل محل یہی باب ہے۔ اس سلسلہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں ہاتھوں کےساتھ مصافحہ کیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک د و ہاتھ  کے ساتھ مصافحہ کےقائل نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اپنی ایک کتاب ‘‘البروالصلہ’’میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بایں الفاظ بیان کی ہے، کہ رسول اللہ جب کسی آدمی سےملاقات فرماتے  تو اپنا ہاتھ مبارک اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لینا۔ (فتح الباری،ص:۶۸،ج ۱۱) حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے اس وضاحت سے دوہاتھ سےمصافحہ کی تردید کی ہے کہ تابعی حماد بن زید نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ علیہ سے دو ہاتھ سےمصافحہ کیا  لیکن خود عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ دو ہاتھ سے مصافحہ کےقائل نہیں تھے، رہ گئے حماد بن زید تو ان کا عمل متعدد احادیث اور متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےطریقہ مصافحہ کےمقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے ،کتب احادیث میں تقریباًچوبیس احادیث ایسی مروی ہیں جن میں مصافحہ کےوقت ایک ہاتھ ملانے کا ذکر ہے، آخر میں ایک ہاتھ کے مصافحہ پر احناف ہی کا ایک حوالہ پیش خدمت ہے۔ ابن عابدین درمختار کے حاشیہ ردالمختار میں لکھتے ہیں کہ ‘‘اگر حجراسود کو چومنےکی طاقت نہ ہوتو اپنے دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھ دے اور انہیں چوم لے یا ایک ہاتھ رکھے بلکہ صحیح یہ ہےکہ اپنا دایاں ہاتھ رکھے کیونکہ شرف اور بزرگی کے کاموں میں یہی دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے۔‘‘بحرالعمیق’’نامی کتاب سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ حجر اسود اللہ تعالیٰ کا دایا ں ہاتھ ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں سےمصافحہ کرتا ہے اور مصافحہ تو دائیں ہاتھ سے ہی کیا جاتا ہے۔ (ردالمحتار،ص:۶۶،ج۲) آخر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت ہے ہم اپنے فتویٰ کو مکمل کرتےہیں ، فرماتے ہیں یہ فصل اس بات کے بیان میں ہے کہ دائیں ہاتھ سے کون سا کام مستحب ہے اور بائیں ہاتھ سے کو ن سا  کام کرنا چاہیے ۔ چیزوں کا لینا، کھانا پینا،مصافحہ کرنا دائیں ہاتھ سے بہتر ہے۔ اسی طرح دائیں جانب سے وضو کا آغاز کرنا، جوتا پہننا اور اپنے کپڑے زیب تن کرنا وغیرہ ۔(غنیۃ الطالبین) مختصر یہ ہے کہ مصافحہ کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ صرف دائیں ہاتھ سے کیا جائے۔ بایاں ہاتھ اس کےلئے استعمال نہ کیا جائے۔(واللہ اعلم بالصواب) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص404
Flag Counter