Maktaba Wahhabi

125 - 2029
عورتوں کا بال کٹوانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے بال کٹواتی تھیں اور کانوں تک رکھتی تھیں؟ ٭کیا عورت اپنے بال کٹوا سکتی ہے یا نہیں ؟ ٭کیا عورت اپنی دوگتیں کراسکتی ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بالوں کےمتعلق احادیث میں ہےکہ ان کا اکرام کیا جائے، ان کے اکرام کےلئے انہیں دھونا، صاف کرنا، تیل لگانا اور کنگھی کرنا ہے، اس میں مرد اور عورت کی کوئی تمیز نہیں ،البتہ مردوں کے لئے بال رکھنے کی حد بندی ہے جبکہ عورت کےلئے اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعلق صحیح روایات ہیں کہ آپ کے بال نصف کانوں تک اور ایک روایت کے مطابق کہ کندھوں کےدرمیان ہوتے تھے۔ (صحیح بخاری،اللباس:۵۹۰۱) اس میں کوئی شک نہیں  ہے کہ عورت کا حسن و جمال اس کے خوبصورت لمبے اور گھنے بالوں میں ہے۔ قرون اولیٰ کی خواتین اپنے بالوں کے متعلق خاص اہتمام کرتی تھیں لیکن آج مغرب زدہ عورت جسے گھر سے باہر کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا شوق ہے اور اسے گھریلو کام کاج کے لئے فرصت نہیں ہے چونکہ عورت کے بال محنت طلب کرتے ہیں جبکہ آج کی صنف نازک اس محنت سے قاصر ہے۔ اس نے گندے بالوں کو اٹھائے رکھنے کے بجائے انہیں اتارپھینکنے میں ہی عافیت سمجھی ہے، پھر بالوں کو فیشن کےطورپر کاٹنا خالص مغربی تہذیب ہے۔ مشرقی خواتین میں یہ تہذیب مغرب کی طرف سے آئی ہے۔ اس لئے اس پر فتن دور میں عورت کو اپنے بال کاٹنے کی اجازت دینا مغربی تہذیب کی آبیاری کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ازواج مطہرات کا جو عمل پیش کیا جاتا ہے وہ کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ازواج مطہرات اپنے بالوں سے لے لیتی تھیں حتی کہ وہ وفرہ کی مانند ہوتے تھے۔ (صحیح مسلم ، الحیض:۷۲۸) ہمارے نزدیک اس کامعنی یہ ہے کہ وہ اپنے بالوں کا خاص انداز سے جوڑا بنالیتی تھیں۔ جو وفرہ کی شکل میں نظر آتاتھا، امام مسلم ؒ نے اس عمل کو طہارت کےمسائل میں بیان کیا ہے یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد بالوں کا کاٹنا نہیں ہے بلکہ غسل کےموقع پر ان کا جوڑا بنانا ہے۔ عموماً خواتین غسل کے وقت یہ عمل کرتی ہیں، اگر اس سےمراد کاٹنا ہوتو بھی محدثین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد ازواج مطہرات نے سادگی اورترک زینت کے طور پر ایسا کیا تھا۔ اس کے علاوہ  اسلامی خواتین کو کفر پیشہ عورتوں سے مشابہت نہیں کرنا چاہیے اور مردوں سے مشابہت کرنے والیوں پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔(صحیح بخاری ،اللباس:۵۸۸۵) ہمارے نزدیک کسی معقول عذر کے بغیر عورت کو سر کے بال کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ خاوند کی خوشنودی کوئی معقول عذرنہیں ہے کیونکہ اس کی خوشنودی شریعت کےتابع ہے،ا س لئے فیشن کےطورپر عورت کا بال کاٹنا جائزنہیں  ہے، البتہ دومیڈھیاں یا گیسو بنانےمیں کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی فوت ہوئی تھیں تو اس کے بالوں کی تین میڈھیاں بنائی گئی تھیں۔ (صحیح بخاری ،الجنائز:۱۲۳۶) اس لئے عورت کو اپنے بالوں کی دو تین میڈھیاں (گتیں  ) بنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ فیشن کے طورپر انہیں کاٹنا شرعاًجائز معلوم نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص400
Flag Counter