Maktaba Wahhabi

27 - 2029
(250) خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ فتویٰ کمیٹی کو یہ سوال موصول ہوا ہے کہ کیا مسلمان کےلیے یہ جائز ہے کہ وہ مختلف اسباب و وسائل کو اختیار کر کے خاندانی منصوبہ بندی کر سکے؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! کبار علماء کی کونسل نے اس مسئلہ پر پہلے بھی غور کیا تھا اور اس کے بارے میں درج ذیل قرارداد منظور کی تھی: ’’یہ دیکھتے ہوئے کہ اسلامی شریعت نے نسل انسانی کے پھیلانے اوربڑھانے کی ترغیب دی ہے‘ نسل کو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان عظیم اور نعمت کبریٰ قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ کتاب و سنت کے ان بے شمار نصوص سے یہ واضح ہے‘ جنہیں بحوث علمیہ و افتاء کی فتویٰ کمیٹی نے اپنے اس تحقیقی مقالہ میں ذکر کیا ہے جو کونسل کے سامنے پیش کیا گیا تھا‘‘۔ ’’یہ دیکھتے ہوئے کہ خاندانی منصوبہ بندی یا منع حمل اس انسانی فطرت سے متصادم ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے نیز یہ اسلامی شریعت سے بھی متصادم ہے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کےلیےپسند فرمایا ہے‘‘۔ ’’یہ دیکھتے ہوئے کہ خاندانی منصوبہ بندی یا منع حمل کی علمبردار ایک ایسی جماعت ہے جس کا مقصد اپنی اس دعوت سے مسلمانوں کے خلاف عموماً اور عرب مسلمانوں کیخلاف خصوصاً سازش ہے اور اس سازش کے ذریعے وہ مسلمانوں کی آبادی کو کم کر کے مسلمانوں اور ان کے ملکوں پر غاصبانہ تسلط جمانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں میں زمانہ جاہلیت کے اعمال کی جھلک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے ساتھ بدگمانی ہے اور اسلامی معاشرے کی عمارت کو جو کہ بہت سی انسانی اینٹوں سے مل کر وجود میں آئی ہے‘ تباہ کرنے کی سازش ہے لہٰذا کونسل کی رائے میں خاندانی منصوبہ بندی اور منع حمل قطعاً جائز نہیں ہے جبکہ یہ بھوک اور افلاس کے خدشہ کی وجہ سے ہو کیونکہ رازق تو اللہ تعالیٰ ہے جو کہ زور آور اور مضبوط ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَما مِن دابَّةٍ فِی الأَر‌ضِ إِلّا عَلَی اللَّہِ رِ‌زقُہا...٦﴾... سورة ہود ’’اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ ہاں البتہ اگر منع حمل کسی ناگزیر ضرورت کی وجہ سے ہو‘ مثلاً عورت حسب معمول بچے کو جنم نہ دے سکتی ہو بلکہ اس کےلیے وہ آپریشن کےلیے مجبور ہو یا میاں بیوی کسی مصلحت کی وجہ سے حمل میں تاخیر چاہتے ہوں تو پھر منع حمل یا حمل کو مؤخر کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے تاکہ احادیث صحیحہ اور حضرات صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے عزل کا جو جواز مروی ہے اس پر عمل ہو سکے اور فقہاء کے اس فتویٰ پر عمل ہو سکے  کہ چالیس دن سے پہلے پہلے نطفہ نکالنے کےلیے دواء استعمال کرنا جائز ہے۔ یاد رہے ناگزیر ضرورت و حاجت ثابت ہو جائے تو پھر منع حمل ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص213
Flag Counter