Maktaba Wahhabi

1408 - 2029
(520) حیوانات کو بجلی کے جھٹکے سے قتل کرنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ افتاء کی مستقل کمیٹی کو برادر سید عزیز پاشا سیکرٹری جنرل اتحاد جمعیات اسلامیہ لندن کی طرف سے خط موصول ہوا ہے‘ جس میں جانوروں پر سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم اسلامی جماعتوں کو اس بات کا قائل کیا جائے کہ وہ ان جانوروں کا گوشت کھائیں جنہیں ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دیا گیا ہو۔ رائل کونسل نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ تنزایہ کے قاضی اکبر نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئی کہا ہے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی نص نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حیوانات کا گوشت کھانا حرام ہے جنہیں ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دیا گیا ہو۔ انہوں نے اس سلسلہ میں صحیح فتویٰ طلب کیا ہے لہٰذا آپ سے امید ہے کہ اس موضوع سے متعلق فتویٰ جاری فرما کر ہمیں ارسال کریں گے تاکہ رائل کونسل کو جواب دینا ممکن ہو؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! کمیٹی نے اس کا حسب ذیل جواب دیا: اولاً: اگر بجلی کا جھٹکا اس کے سر پر لگایا گیا یا اسے بجلی کا کرنٹ لگا دیا گیا اور جانور ذبح کرنے سے پہلے پہلے مر گیا تو یہ ’’موقوذۃ‘‘جو چوٹ لگ کر مر جائے ہوگا اور اس کا گوشت کھانا جائز نہیں خواہ بعد میں اس کی گردن کو کاٹ لیا جائے یا اسے لبہ سے نحر کر لیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿حُرِّ‌مَت عَلَیکُمُ المَیتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزیرِ‌ وَما أُہِلَّ لِغَیرِ‌ اللَّہِ بِہِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَ‌دِّیَةُ...﴿٣﴾... سورة المائدة ’’تم پر طبعی موت مرا ہوا جانور اور (بہتاہوا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے… یہ سب حرام ہیں‘‘۔ تمام علماء اسلام کا اجماع ہے کہ اس قسم کا ذبیحہ حرام ہے اور اگر بجلی کے جھٹکے وغیرہ کے بعد جانور ابھی تک زندہ ہو اور اسے ذبح یا نحر کر لیا جائے تو اسے کھانا جائز ہے کیونکہ اس مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَ‌دِّیَةُ وَالنَّطیحَةُ وَما أَکَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَکَّیتُم...﴿٣﴾... سورة المائدة ’’اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے‘ یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان حرام جانوروں میں سے اسے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو زندہ ہو اور اسے ذبح کر لیا جائے تو اسے کھانا جائز ہے لیکن جو جانور ذبح یا نحر سے پہلے ہی بجلی کے جھٹکے سے مر جائے تو ذبح کرنے سے بھی وہ حلال نہ ہوگااس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی روشنی میں وہ حیوانات حرام ہیں جو ذبح کرنے سے پہلے ہی بجلی کے جھٹکے سے مر جائیں ۔ «مَا أَنْہَرَ الدَّمَ، وَذُکِرَ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ فَکُلُوہُ، لَیْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ عَنْ ذَلِکَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَی الحَبَشَةِ »  ( صحیح البخاری) ’’جو چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو توا سے کھا لو لیکن وہ (خون بہانے والی چیز) دانت اور ناخن نہ ہو اور عنقریب میں تمہیں بتائوں گا کیونکہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں مال غنیمت میں سے اونٹ اور بکریاں ملیں تو ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ کھڑا ہوا‘ اسے ایک آدمی نے تیر مار کر روک لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ لِہَذِہِ البَہَائِمِ أَوَابِدَ کَأَوَابِدِ الوَحْشِ، فَمَا غَلَبَکُمْ مِنْہَا فَاصْنَعُوا بِہِ ہَکَذَا » ( صحیح بخاری) ’’بلاشبہ ان جانوروں میں سے کچھ غضبناک (مشتعل) ہو جاتے ہیں جس طرح وحشی جانور غضبناک ہوتے ہیں‘ لہٰذا ان میں سے جب کوئی تم پر غالب آ جائے تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو‘‘۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپ کے پالتو جانوروں میں سے جو تمہیں عاجز کر دے تو وہ شکار کی طرح ہے‘ جو اونٹ کنویں وغیرہ میں گر جائے تو اسے جہاں سے ممکن ہو ذبح کر لو۔ حضرت علی حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عائشہؓ کی بھی یہی رائے ہے اور بخاری و مسلمؒ نے حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللہِ، فَإِنْ أَمْسَکَ عَلَیْکَ، فَأَدْرَکْتَہُ حَیًّا فَاذْبَحْہُ، وَإِنْ أَدْرَکْتَہُ قَدْ قَتَلَ، وَلَمْ یَأْکُلْ مِنْہُ فَکُلْہُ، وَإِنْ وَجَدْتَ مَعَ کَلْبِکَ کَلْبًا غَیْرَہُ، وَقَدْ قَتَلَ فَلَا تَأْکُلْ، فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَیُّہُمَا قَتَلَہُ، وَإِنْ رَمَیْتَ سَہْمَکَ، فَاذْکُرِ اسْمَ اللہِ، فَإِنْ غَابَ عَنْکَ یَوْمًا، فَلَمْ تَجِدْ فِیہِ إِلَّا أَثَرَ سَہْمِکَ، فَکُلْ إِنْ شِئْتَ، وَإِنْ وَجَدْتَہُ غَرِیقًا فِی الْمَاءِ، فَلَا تَأْکُلْ»  ( صحیح مسلم) ’’جب تم اپنے کتے کو شکار کیلئے چھوڑو تو اللہ تعالیٰ کا نام لے لو‘ اگر وہ شکار کو آپ کیلئے پکڑ لے اور آپ اسے زندہ پائیں تو اسے ذبح کر لیں‘ اگر آپ اسے اس حالت میں پائیں کہ اس نے شکار کو قتل کر دیا ہے اور اسے خود نہیں کھایا تو اسے کھا لیں اور اگر آپ اپنے کتے کے ساتھ کسی دوسرے کتے کو بھی پائیں اور شکار قتل ہو گیا ہو تو اسے نہ کھائیں کیونکہ آپ کو معلوم نہیں کہ اسے کس کتے نے قتل کیا ہے؟ اگر آپ تیر پھینکیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لے لیں‘ اگر شکار ایک دن غائب رہے اور پھر آپ اس میں صرف اپنے تیر ہی کا نشان پائیں تو اگر چاہیں تو اسے کھا لیں اور اگر شکار کو پانی میں غرق پائیں تو اسے نہ کھائیں‘‘۔ امام بخاریؒ نے حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: «إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّہِ فَکُلْ، فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِہِ فَقَتَلَ فَإِنَّہُ وَقِیذٌ فَلاَ تَأْکُلْ» ( صحیح بخاری) ’’اگر تم نے اسے دھار سے ذبح کیا ہو توا سے کھا لو اور اگر عرض کی طرف سے اسے مارا ہو تو وہ چوٹ لگ کر مرا ہے لہٰذا اسے نہ کھاؤ‘‘۔ رائل برٹش کونسل کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ حیوانات کے ساتھ نرمی کریں حتیٰ کہ جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہو اس کے سر پر بھی نہ تو ضرب لگائیں اور نہ اسے بجلی کا کرنٹ لگائیں اور نہ کسی کو حیوانات کے ذبح و نحر کے وقت ایسا کرنے کی اجازت دیں اور اگر کسی حیوان کو باندھے بغیر ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اسے رسی وغیرہ سے باندھ لیا جائے اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو اسے اس طرح نیزہ یا تیر مارا جائے جس سے اس کا خاتمہ ہو جائے‘ یہ عمل اس کے ذبح کے مترادف ہوگا جب کہ وہ نیزہ یا تیر مارنے کے بعد ابھی تک زندہ نہ ہو‘ جیسا کہ سابقہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے‘ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦﴾... سورة التغابن ’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو‘‘۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص480 محدث فتویٰ
Flag Counter