Maktaba Wahhabi

1099 - 2029
دارالحرب میں سود لینا درست ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شر ع متین در باب سود کی کہ زماننا اکثر اہل اسلام بدلیل اس کے کہ یہ ملک دارالحرب ہے ۔ اور دارالحرب میں سود لینا درست ہے ۔ آپس میں ہندئووں اور مسلمانوں سے سود لیتے ہیں اور دیتے ہیں ۔ آیا اس حیلہ سے سود لینا مسلمانوں کو اس ملک میں درست ہے یا نہیں ؟  بینوا تو جروا۔  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! درصورت مرقو مہ جا ننا چا ہئے ۔ کہ سود کا لینا دینا خواہ دارالاسلام میں ہو خواہ دارا لحرب میں حرام ہے ۔ اور ممنو ع ہے ۔ نزدیک امام ما لکرحمۃ اللہ علیہ  اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور  امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور علما رحہمہ اللہ کے کیو نکہ قرآن وحدیث اور اجما ع صحا بہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے حر مت ربو اکی ثا بت ہے ۔ قطعا مگر ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں ۔ کہ دارالحرب میں کا فر حر بی سے سود لینا درست ہے ، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ولیکن ملک ہندو ستا ن رنگون سے لے کر پشا ور تک ہرگز دارالحرب نہیں ۔ مطابق مذہب  امام صاحب کے اس لئے کہ موا فق تحقیق اور تنقیع علماء متاخرین حنفیہ کے دارالحرب کی تعریف نزدیک امام صا حب رحمۃ اللہ علیہ کے یہ ہے ۔ کہ جب کہ کل شائر اسلام کے مو قوف ہو جا ویں تو اس صورت میں داراسلام دارالحر ب ہو جاتا ہے ۔ اور جب تک ایک سبب بھی شعائر اسلام کا موجود ہوگا تو دارالحرب متحقق نہ ہوگا۔ جیسا کہ فصول عمادی وطحاوی وغیرہ میں مذکور ہے۔ اورجب کہ ہندوستان دارلحرب نہ ٹھرا۔ تو نزدیک امام صاحبرحمۃ اللہ علیہ کے بھی حرام وممنوع ہوگا۔ ولہ ان ہذا لبلدة صارت دارا لا سلام باجرا ء احکام الاسلام فیہا فما بقی شئ من احکام دارالسلام فیہا یبقی دارا لا سلام علی ماعرف ان الحکم اذاثبت بعلتہ فما بقی شی من العملة یبقی الحکم ببقائہ ہذا زکر شیخ الاسلام ابو بکر فی شرح سیر الاصل وزکر فی موضع اخر منہا ان دالرالسلام لا تصیر دارالحرب اذا بقی شئ من احکام الاسلام وان ال غلبتہ وزکر صدرلاسلام اب الیسر فی سیرالاصل ایضا ان دارالسلام لا تصیردارالحرب مالم یبطل جمیع مابہ صارت دارالسلام کزا زکرہ فی باب احکام المرتدین وزکر شیخ الاسلام الا سبیحانی فی مبسوطہ ان دارالسلام محکومة یکونہا دارالسلام فیبقی ہذا لحکم ببقاء حکم واحد فیہا ولاتصیر دارالحرب الا بعد زوال القرائن کلہا ودارلحرب تصیر دارلاسلام بزوال بعض القرائن وہو ان یجری فیہا احکام السلام وزکر الامشی فی واقعاتہ ہکذا اوزکر السید الامام ناصر الدین فی المنشور ان دارلاسلام باجراء احکام السلام فمابقی علقہ من علائق السلام بزحج جانب الاسلام کذافی الفصول المعادیة وہکذا فی الطحاوی ولد والمختار وغیرہما من کتب الفقہ قالامولاناعبد العزیز دہلوی بعد نقل ہذہ الروایات المذکورة فی جواب السائل المستفتی فعلم من ہذہ لروایات  الفقیہة ان ہذ البلاد لا تصیر دارلاحرب علی مذہب الامام اعظم ابی حنیفة بل تکون دارلسلام کما کان ولا یجوز المسلم اخذ الربوا من نصرا فی وغیرہ لان حرمتہ قطعیة ثاتة بالایة بقولہ تعالیٰ احل اللہ البیع وحرم الربوا وبقولہ علیہ الصلاة وسلام لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکلہ الربوا وموکلہ کما ہو مذکور فی کتب الاحادیث عن لصحاح السنة وعلی مذہب صاہبیہ تصیر دارلحراب اذا اجرو فیہا احکامہم ففی اخذ الربوا من الحربی اختلاف فعندہ الامام شافعی ومالک و احمد وابی یوسف لا یجوز فی دارالحرب ایضا وعند الامام الاعظم ابی حنیفہ رحمة اللہ علیہ ومحمد یجوزفی دارلحرب کما قال فی الہدایہ ولا ربوا بین المسلم ولحربی فی دارالحرب خلافا لابی یوسف والشافعی انتہیم ما نقل مولانا مرحوم مختصرا اور مولانا محمد اسحاق صاحب مرحوم و مغفور نے بھی ہیچ جواب مسفتی کے ارشاد فرمایا کہ سو د لینا دارلحرب میں حربی سے بھی درست نہیں۔ چنانچہ عبارت فتوے جناب مولانا مبرور کی یعینہ نقل کی جاتی ہے۔ 'درحلت وحرمت مبلغ سود دارلاحرب از حریباں کلامی است وآں این است کہ حرمت ربوا نبص قطعی ثابت است کما قال اللہ تعالیٰ۔ وَأَحَلَّ اللَّـہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ۔ وحلت ربوا از کافر حربی ورد الحرب ظنی است پس کردن بردلیلاقوی اوکداست خصوصا وقتے کہ وردالحرب بودن ایں دیارعلماء اختلافباشد اجتناب ور رگرلتن سوز ا ز حربی اوکدا الزم خواہد بود ونیز قاعدہ فقہ است اذا اجمتع الحلال والحرام غلب الحرام وایں وقت کہ باشدکہ دو ہر دلیل دریک مرتبہ باشدہ چوں یک دلیل کمتر باشد ازدلیل دیگر پس عمل براقوی موکتر مشود بنا بریں ہم ربواا ز حربی نباید گرفت وآئندہ از معاملہ سودگرفتن از حربی چہ جائے۔ مسلم اجتناب باید نمود تمام شد عبارت فتویٰ جناب مولانا مرحوموم واجب ہے۔ مسلمان دیندار سعادت شعار پر کہ کہنے سے کسی نیم ملاں کے سود کے لینے دینے سے اگرچہ دارالحرب میں ہو۔ پرہیز واجتناب ضرور کریں۔ اور مضامین ان آیتوں سے خوف وخطر میں رہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سود خواروں کے حق میں فرماتا ہے۔ لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ۔ یَمْحَقُ اللَّـہُ الرِّبَا ۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـہِ وَرَسُولِ۔  یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـہَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ۔ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ ہُمْ فِیہَا خَالِدُو وما علینا الاالبلاغ ۔ واللہ اعلم بالصواب۔  (سید محمد نذیر حسین دہلوی) ھذا الجواب صحیح۔ محمدقطب الدین۔ سید محمد ہاشم۔ محمد یوسف محمد سعودنقشبندی۔ فقیر خواجہ ضیاء الدین احمد۔ چونکہ درسوال مرقوم ہے۔ کے سود فی زماننا اکثراہل اسلام بدلیل اینکہ ایں ملک دارلحرب است دور دارلحرب سودگرفتن درست است ہندو مسلمان باہم دیگر سودمی گیرندومی وہند پس ازیں حیلہ سودگرفتن مسلمانان رادریں ملک درست است یا نہ؟ جواب۔ ایں سوال صرف ایں قدر باید کے ایک ملک دارالحرب نیست حسب روایات استغناء دریں صورت سود گرفتن بالاتفاق درست نیست وسائل سوال ازچین دروس کے بالاتفاق دارالحرب مسند نمی کند کہ درجواب نوشتہ شود و گفتگو دریں مقدمہ بسیار ودرکتب خمسہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ مرقوم است کہ طول بسیار می خواہد پس جواب بایں قدر ہست کہ این ملک دارلحرب نیست ودستخظ ہم بریں است وبردیگر روایات نیست ۔  (کتبہ صدر الدین خان صدر الصدور سابق دہلی (بقلم خاکسار محمد سبحان علی لکھنوی)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 362
Flag Counter