Maktaba Wahhabi

180 - 2029
بوہروں کا یہ عمل غیر اسلامی ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تمام عورتیں اپنے عالم اور پیر کے ہاتھ اور پاؤں چومتی ہیں۔ کیا اسلام میں عورتوں کے لیے کسی غیر محرم۔ بڑے عالم کے ہاتھ اور پاؤں کو چھونا (یا چومنا) جائز ہے؟ یہ عمل صرف پیر صاحب کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے ہر فرد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ۱)         آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ بوہرہ عورتیں اپنے ٖپیر پیر کے خاندان کے ہر فرد کے ہاتھ اور پاؤں چومتی ہیں یہ کام جائز نہیں۔ یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے نہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے کیا ہے کیونیہ اس میں مخلوق کی تعظیم میں غلو پایا جاتا ہے جو شرک تک پہنچانے کا سبب بن سکتاہے۔ (۲)       مرد کے لئے جائز نہیں کہ کسی نامحرم عورت سے مصافحہ کرے یا اس کے جسم کو ہاتھ لگائے۔ کیونکہ اس میں فتنہ پایا جاتا ہے اور وہ اس سے بھی قبیح حرکت یعنی زنا یا ا س کے ذرائع تک پہنچنے کا باعث بن سکتاہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: ’’جناب رسول اللہﷺ مہاجر خواتین کے ایمان کی جانچ اس آیت سے کرتے تھے: ﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَاءَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَیٰ أَن لَّا یُشْرِکْنَ بِاللَّـہِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ ۙفَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللَّـہَ ۖ إِنَّ اللَّـہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ﴿١٢﴾...الممتحنة ’’اے نبی! جب تیرے پاس مومن عورتیں (اس شرط پر) بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گی‘ چوری اور بدکاری نہیں کریں گی‘ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی‘ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی اور نیکی کے کام میں آپ کی نافرمان نہیں کریں گی‘ تو ان سے بیعت لے لیجئے اور ان کے لئے اللہ سے بخشش کی دعا کیجئے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے ولا نہایت رحم کرنے ولا ہے۔‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’جو مومن خاتون ان شروط کا اقرار کرلیتی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماسے زبانی کہہ دیتے: (قَدْ بَایَعْتُکِ کَلاَماً، وَلاَ وَاللہ مَا مَسَّتُ یَدُہ یَدَ امْرَأَة قَطُّ فِی الْمُبَایَعَة مَا یُبَایِعُھُنَّ إلاَّ بِقَوْلِہ: قَدْ بَایَعْتُکِ عَلَی ذَالِکِ) ’’میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے۔ اللہ کی قسم‘ بیعت کے دوران کبھی رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا۔ آپﷺیہ فرما کر ان سے بیعت لے لیت تھے: ’’میں نے تجھ سے ان شرطوں پر بیعت لے لی ہے۔‘‘(مسند احمد ج:۲‘ ص:۱۶۳‘ ج:۳‘ ص:۱۱۳‘ ج:۴‘ ل:۱۸۲‘ ص:۹۱‘ ۲۵۱‘ ۳۲۲‘۔ صحیح مسلم مع نووی ج:۱۲‘ ض:۲۰۳۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۱۴۰‘ ۳۵۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۳۸۳۴۔) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی حضور اظہار عجز کرتے ہوئے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔‘( مسند احمد ج:۲‘ ص:۱۶۸‘ ج:۳‘ ل:۱۱۳‘ ج:۴‘ ل:۱۸۲‘ ص:۹۱‘ ۲۵۱‘ ۲۹۴‘ ۳۰۲‘ ۳۱۵۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۳۱۴۰‘ ۳۰۲۲‘ ۳۵۸۷۔) اور اگر روح اور ایمان کا مالک ہونے سے اس شخص کا یہ مطلب ہے کہ اس کا ایمان لانا اس کے مریدوں کے لئے بھی کافی ہے۔ ا سکی وجہ سے انہیں بھی اجروثواب مل جائے گا اور وہ عذاب سے بچ جائیں گے اگرچہ برے اعمال کرتے رہیں اور جرائم اور گناہوں کا ارتکاب کرتے رہیں‘ تو یہ دعویٰ قرآن مجید کی ان آیات کے مخالف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ...٢٨٦﴾...البقرة ’’اس (جان) کے لئے ہے وہ (اچھا کام) جو اس نے کمایا اور اس پر ہے وہ (برا کام) جو اس نے کیا۔‘‘ نیز ارشاد ہے: ﴿کُلُّ امْرِئٍ بِمَا کَسَبَ رَہِینٌ ﴿٢١﴾...الطور ’’ہر شخص اپنے کمائے ہوئے (اعمال) کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے۔‘‘ اور فرمان ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ ﴿٣٩﴾ فِی جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ الْمُجْرِمِینَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ ﴿٤٢﴾...المدثر ’’ہر جان ان (عملوں) کے بدلے رہن (گروی) ہے جو اس نے کمائے‘ مگر دائیں ہاتھ والے۔ جنتوں میں پوچھ رہے ہوں گے مجروں سے۔ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کردیا؟…‘‘ اور فرمایا: ﴿مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ وَلَا یَجِدْ لَہُ مِن دُونِ اللَّـہِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا﴿١٢٣﴾ وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُونَ نَقِیرًا ﴿١٢٤﴾...النساء ’’جو شخص بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ کے سوا اپنا کوئی دوست یا مدد گار نہیں پائے گا اور جو نیک عمل کرے گا‘ خوہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ وہ مومن ہو‘ تو ایسے لوگ ہی جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ظلم نہیں کیاجائے گا۔ (یعنی وہ برابر بھی ان کے حق تلفی نہیں کی جائے گی) مزید فرمایا: ﴿وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ﴿٣٩﴾...النجم ’’اور اے انسان کے لئے صرف وہی کچھ ہے جو اس نے کوشش کی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَیٰ حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَیٰ... ١٨﴾...فاطر ’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی کسی کو اپنے (بھاری) بوجھ کی طرف بلائے گی (کہ کوئی تھوڑا سا اس کا بوجھ اٹھا کر اس کی مدد کرے) تو اس (بوجھ) میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا۔ چاہے (جسے بلایا گیا ہے وہ) قریب ترین رشتہ دار ہی کیوںنہ ہو۔‘‘ اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص کو صرف اپنے اعمال کابدلہ ملے گا‘ خواہ وہ اچھا ہو یا برا نیز صحیح حدیث میں وارد ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ ﴿٢١٤﴾...الشعراء ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیے‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: (یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ۔ أَوْ کَلِمَة نَحُوَھَا۔ اشْتَرُو أَنْفُسَکُمْ لاَ أُغنِی عَنْکُمْ مِنَ اللہ شَیْئاً، یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لاَ أُغْنِی مِنَ اللہ شَیْئاً، یَا صَفِیَّة عَمَّة رَسُولِ اللہ لاَ أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللہ شَیْئاً، یَافَاطِمَة بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنی مِنْ مَالِی مَاشِئْتِ لاَ أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللہ شَیْئاً) ’’اے جماعت قریش! اپنی جانوں کو خرید لو (ایمان قبول کرکے جان بچالو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آؤںگا اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے حضور آپ کے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ! میرے مال سے جو چاہے مانگ لے‘ میں اللہ کے حضور تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔‘‘( صحیح بخاری جدیث نمبر: ۴۷۷۰۔ مسند دارمی ج:۲‘ ص:۳۰۵۔) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ دارالسلام ج 1
Flag Counter