Maktaba Wahhabi

76 - 2029
(122) محفلوں اور حکومتی پروگراموں میں بچیوں کا جانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا حکومتی ادارے قومی محفلوں کے نام سے ان پروگراموں میں شرکت کے لئے بچیوں کو مجبور کر سکتے ہیں؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! امتوں کو سعادت و کامرانی ، ترقی، انتظامی خوبی اور حفاظت و استحکام صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ ان کے حکمران اور قائدین اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ عقیدہ، قول و عمل اور تنازعات کے حل میں انہیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاج پر چلائیں۔ اس طرح حکمرانوں اور قائدین کو بھی استحکام و اعتبار اور وجاہت ایسی امتوں ہی کی بدولت حاصل ہو سکتی ہے  جو زندگی کے تمام پہلوؤں دین ، استقامت، علم، ثقافت، صنعت، زراعت، قوت، اور ترقی میں ان امور کو پیش نظر رکھیں جو قوموں کو عروج پر پہنچا دیتے ہیں اور ان کے افراد کو سربلندی سے ہمکنار کر تے ہیں کہ وہ ایک ایسا اعلیٰ عملی نمونہ بن جاتے ہیں کہ عقل مند لوگ ازراہ تعجب نظریں اونچی کر کے انہیں دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کو جاننے والے ان سے ڈرتے ہیں۔ حکمران اپنی قوموں کے ساتھ  جس قدر خیر و بھلائی کے ساتھ حسن سیاست کی روشن اختیار کریں گے اور جس قدر ان کی اصلاح کی طرف توجہ مبذول کریں گے، وہ اسی قدر قوت و عزت اور عظمت و شوکت کی صورت میں اس کے ثمرات بھی حاصل کریں گے اور قومیں بھی جس قدر اپنے مصلح حکمرانوں کی آواز پر لبیک کہیں گی، معروف کو قبول کریں گی اور اس کے حصول میں ان کے ساتھ تعاون کریں گی، اسی قدر سعاوت و کامرانی، خوش حالی و فارغ البالی اور راحت و اطمینان کی دولت سے فیض یاب ہوں گی۔ مسلمانوں حکمرانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی اپنی قوموں میں اسلامی سیاست کو بروئے کار لائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے نور سے روشنی حاصل کریں اور خلفاء راشدین کے طرز سیاست کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تاکہ وہ خود بھی اور ان کی قومیں بھی سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوں، دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے شاد کام ہوں، انہیں اسلامی شریعت اور اس کے مبنی برعدل و انصاف اسلوب حکومت کی مخالفت سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور کافر حکومتوں کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ تباہی و بربادی کے گڑھوں میں گر جائیں گے جیسا کہ یہ کافر حکومتیں اپنے غلط نظام حکومت، اخلاقی بے راہ روی، تہذیبی و ثقافتی خرابی، تعلیمی اداروں میں لہوو لعب اور مستی و بے حیائی کے چلن اور مخلوط تعلیم کی وجہ سے آج تباہی و بربادی کے گڑھوں میں گرے ہوئے ہیں اگر مسلمانوں نے بھی ایسا کیا تو ان کا شیرازہ  بکھر جائے گا، ان کی قوت و شوکت ماند پڑ جائے گی ، اللہ تعالیٰ  انہیں ذلیل و رسوا کرے گا اور انہیں عذاب سے دوچار کرے گا کہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں کی یہی سزا ہے۔ آخر میں یہاں اس جانب توجہ مبذول کرانا بھی ضروری ہے کہ وہ ذات گرامی، جنہیں جوامع الکلم کے معجزے سے نوازا گیا تھا کے اس ارشاد سے بڑھ کر کوئی انسانی قول زیادہ خوبصورت، زیادہ مکمل اور زیادہ جامع نہیں ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے: (( أَلا کُلُّکُمْ رَاعٍ ، وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ ، فَالأَمِیرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَہْلِ بَیْتِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُمْ ، وَامْرَأَةُ الرَّجُلِ رَاعِیَةٌ عَلَی بَیْتِ بَعْلِہَا وَوَلَدِہِ وَہِیَ مَسْئُولَةٌ عَنْہُمْ ، وَالْعَبْدُ مَسْئُولٌ عَلَی مَالِ سَیِّدِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُ ، أَلا وَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ )) (صحیح البخاری) ’’خبردار تم سے ہر ایک نگہبان ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جوابدہ، امام جو لوگوں کا نگہبان ہے، وہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے، مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے، عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ ا ور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جوابدہ ہے، اور غلام(نوکر) اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جوابدہ ہے، خبردار: تم سب نگہبان ہو اور اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: ((ما من عبد یسترعیہ اللہ  رعیة فلم یحطہا بنصحہ إلا لم یجد رائحة الجنة )) ( صحیح البخاری) ’’جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا نگہبان بنا دے اور وہ ان کی ہمدردی و خیر خواہی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔‘‘ اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: ((ما من وال یلی رعیة من المسلمین فیموت وہو غاش لہم إلا حرم اللہ علیہ الجنة )) (صحیح البخاری)  ’’ ہر وہ شخص جو مسلمانوں کی کسی رعیت کا والی ہو اور وہ ان سے دھوکہ کرتے ہوئے فوت ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام قرار دے دے گا۔‘‘  ہر حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے، ان سے ہمدردی و خیر خواہی کرے اور ان میں حق کے ساتھ حکومت کرے کیونکہ ان کے بارے میں اس سے روز قیامت باز پرس ہو گی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص98
Flag Counter