Maktaba Wahhabi

76 - 260
اور کسی کو برا کہہ دیاجائے اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے ﴿یَآٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً﴾ اے لوگو!جو ایمان لائے ہو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔‘‘(سورہ البقرہ،آیت نمبر208) شریعت کے بعض حصوں پر ایمان لانا اور بعض حصوں پر ایمان نہ لانا یہودونصاریٰ کا فعل تھا جس کی انہیں سخت سزا دی گئی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ترجمہ:’’کیاتم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے سے کفر کرتے ہو؟تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کیاہے کہ دنیا میں ذلیل اور رسوا ہوں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں۔ ‘‘(سورہ البقرہ،آیت نمبر85) اہل ایمان کو اس قبیح جرم سے باز آجانا چاہئے ورنہ ان کے لئے بھی وہی سزا ہوگی جو اہل کتاب کو دی گئی۔ دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب!فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ؟ترجمہ:’’پس کیا تم اس جرم سے باز آتے ہو؟ قرآن مجید کی کسی ایک آیت یا حکم کا استہزاء کرنے کی سزا: نزول قرآن کے وقت بھی بعض لوگ قرآنی آیات اور احکام کا مذاق اڑاتے تھے ان میں کافر ،مشرک اور منافقین سبھی قسم کے لوگ شامل تھے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 1 اللہ تعالیٰ نے جب تحویل قبلہ کی آیت﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ترجمہ: ’’پس اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔‘‘(سورہ البقرہ،آیت نمبر144) نازل فرمائی تو اس کا یوں مذاق اڑایاگیاکہ سمجھ نہیں آتی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح قبلہ کس طرف ہے؟اگر پہلا صحیح تھا تو اسے کیوں چھوڑاگیا اور اگر دوسرا صحیح ہے تو پھرپہلا غلط تھا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کی نبی ہوتے تو بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کو اپنا قبلہ نہ بناتے؟ 2 انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دینے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً﴾ ترجمہ:’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے دگنا،چوگنا کرکے واپس کردے۔‘‘(سورہ بقرہ،آیت نمبر245) تو اس کا یوں مذاق
Flag Counter