Maktaba Wahhabi

1472 - 2029
حلال جانوروں میں حرام اجزاء السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ لاہورسےیحیٰ عزیز ڈاہروی نمائندہ خصوصی  ہفت  روز ہ اہلحدیث  حلقہ  کو ٹ  رادھا کشن  لکھتے ہیں کہ حلا ل جانوروں  میں وہ کو ن کون سے اجزا ء ہیں  جو حرا م یا مکرو ہ کے درجے میں آتے ہیں  ؟اس سلسلہ  میں جو  احادیث  وارد  ہیں ان  کا سند اور متن  کے  لحا ظ  سے کیا  درجہ  ہے ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! کسی چیز کو  لوگو ں  کے لیے حلا ل یاحرا م  کر نے  کا اختیا ر اللہ کے پاس ہے ایک مر تبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ کی حلال  کر دہ کسی چیز کو اپنے  آپ پر حرا م  کر لیا  تو اللہ تعا لیٰ  نے اس با ت  پر آپ کا با یں  الفا ظ  نوٹس  لیا ۔"اے نبی !جس چیز کو اللہ تعالیٰ  نے آپ کے لیے  حلا ل  کر دیا  ہے آپ  اسے  حرا م  کیو ں  کر تے  ہیں ؟ (66/التحریم :1) چو نکہ بندوں  پر  اللہ  کی حلا ل یا حرا م کر دہ  چیزوں  کا علم  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ذریعہ ہو تا ہے  اس لیے  بعض  اوقا ت اس تحلیل  و تحر یم  کی نسبت  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف  بھی  کر دی  جا تی ہے  چنانچہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے اوصا ف  قرآن  میں با یں  الفا ظ  بیا ن  ہو ئے  ہیں :" وہ امی  اچھی  باتوں  کا حکم دیتے اور بر ی با توں  سے منع  کر تے ہیں  نیز  پا کیزہ چیزوں  کو حلا ل  اور گندی  چیزوں  کو  ان پر حرا م  فر ما تے ہیں۔(7/الاعراف :157) اس تمہید  کے بعد واضح  ہو ا کہ  جو جا نو ر  اللہ تعا لیٰ نے انسا نوں  کے لیے حلال کیے ہیں  ان کے تمام  اجزاء  بالعموم  حلال  ہیں ہا ں  اگر اللہ خو د  کسی  چیز کو حرا م  کر دے  تو الگ  با ت  ہے جیسا کہ  حلال  جا نو ر کو ذبح  کر تے  وقت  اس کی رگوں  سے جو تیزی  کے  سا تھ  خو ن  بہتا ہے جسے  دم مسفوح  کہا جا تا ہے اللہ تعا لیٰ  نے قرآن  مجید  میں حرا م  قرار دیا ہے  ارشا د باری تعا لیٰ ہے :"آپ کہہ دیجیے  کہ جو کچھ  احکا م  بذریعہ  وحی میر ے  پا س آتے ہیں  میں تو  ان  میں کو ئی چیز  حرا م  نہیں  پا تا  مگر  یہ کہ  مرد ار  ہو یا  بہتا ہو ا خو ن  یا خنزیر  کا گو شت  کیوں  کہ وہ  با لکل  نا پا ک  ہے  یا جو شرک  کا ذریعہ  ہو کہ غیر اللہ کے لیے نا منزد  کر دیا گیا ہو ۔(6/الانعام :145) اس دم مفسوح  کے علا وہ  حلال جا نو ر  کی کو ئی  چیز  نصاًحرا م  نہیں ہے  لیکن  یہ ضروری  ہے کہ ہر حلال  جا نو ر کا ہر جزو کھا نا  ضروری ہو اگر کسی حصے  کے متعلق  دل  نہیں  چا ہتا  تویہ انسا ن کی اپنی مرضی ہے خو د رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض جا نو روں  کے گو شت  کے متعلق اظہا ر نا پسند یدگی  فر ما یا  لیکن آکے سا منے ایک ہی دسترخوا ن پر بعض صحا بہ کرا م   رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے اسے تنا ول فر ما یا  اس  کا مطلب یہ ہے  کہ کسی چیز کا نا پسند یدہ  ہو نا اور بات  ہے اور اسے حرا م  قرار  دینا چیز ے دیگر است  مختصر  یہ ہے کہ حلا ل جا نو ر  کے تمام  اجزاء  حلا ل  ہیں سوائے  ان اجزا ء کے  کہ جنہیں اللہ تعالیٰ  نے حرا م  قرار دے  دیا ہو  بعض  فقہا  نے اس سلسلہ میں کا و ش کی ہے کہ حلا ل جا نو ر کے کچھ  اجزا ء  کو حرا م  کہا  ہے مثلاً: (1)پتہ۔(2)مثا نہ (3)غدود(4)ما دہ کی شر مگا ہ ۔(5)نر جا نو ر  کا عضو  مخصوص(6)کپورے (7)بہتا ہوا خو ن بعض  حضرات  نے بڑی با ر یک  بینی  کے سا تھ  کھو ج  لگا کر مز ید کچھ  چیزوں  کی بھی فہر ست  جا ری  کی ہے (1)حرا م مغز (2)تلی کا خون(3)جگر کا خو ن (4)دل کا خو ن (5)پتہ کا پا نی (6) نا ک کی بلغم (7)آنتیں (8)اوجھڑی ان چیزوں  کی حرمت  یا کم از کم  کرا ہت  کو ثا بت کر نے  کے لیے  دو چیزوں  کو بنیاد  بنا یا ہے (1)روایت (2)درایت پہلی بنیا د : روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ذبح شدہ بکر ی سے سات  چیزوں  کو مکرو ہ خیا ل کر تے تھے  پتہ  غدود  اور بہتا ہو ا خو ن  وغیرہ ۔ دوسری بنیا د : انسانی  نفو س ان چیزوں  کو خبیث  خیا ل کر تے  ہیں  لہذا  یہ مذکو رہ  چیزیں  حرا م  یا مکرو ہ  ہیں  ان حضرات  کے نزدیک  عقل  و نقل  کے اعتبا ر  سے یہ چیزیں  نا پسند  یدہ  اور خبیث  ہیں  لہذا  انہیں حرا م  ہو نا چا ہیے  اب ہم پہلے  روایت  کا کھو ج  لگا تے ہیں  اور  محدثین  کرا م  کے ہا ں  ان کا در جہ  متعین  کر تے ہیں اس  روایت  کو علا مہ سیوطی   رحمۃ اللہ علیہ  نے المعجم  الاوسط  للطبرا نی  السنن الکبری للبیہقی اور کا مل  لا بن عدی  کے حو الے سے بیان  فر ما یا  ہے  اور اس پر  ضعیف  ہو نے کی علا مت   بھی ثبت کی ہے علا مہ البا نی  رحمۃ اللہ علیہ   نے ضعیف   الجا مع  الصغیر  میں رقم 4619کے تحت  بیا ن کیا ہے اور اس کے ضعف  اور سبب  کو بیان  کر نے  کے لیے  الاحا دیث  الضعیفہ حدیث  نمبر 2492کا حو الہ  دیا ہے جو ابھی تک زیو ر طبع  سے  آراستہ  نہیں ہو ئی اگر ہو ئی تو راقم کے پا س نہیں ہے  تا ہم  بیہقی  کے حو الہ سے اس کی سند  کے متعلق  مؤلف  بیان  کر تے ہیں  امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت  کو دو سندوں  سے بیان  کیاہے  پہلی سند  منقطع  ہے کیوں  کہ امام  مجا ہد  اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے درمیا ن کسی  ایک راوی  کے رہ جا نے  کی وجہ سے انقطاع آیا ہے امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  اسے بیان  کر نے کے بعد خو د وضا حت  کر تے ہیں  کہ اس کی سند  منقطع  ہے ۔(السنن  الکبری  للبہییقی:7/10) پھر ایک دوسر ی سند سے اس کی روا یت بیان کر تے ہیں  اس میں انقطا ع تو نہیں ہے  لیکن ایک دوسر ی خرا بی کی وجہ سے یہ عدم  انقطا ع مخدوش  ہو جا تا ہے اس سند  میں ایک راوی  عمر  بن  مو سیٰ ہیں  جس کے متعلق خو د امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں  کہ وہ ضعیف  کمزو ر ہے اس کی وجہ سے  اس کا موصول  ہو نا بھی صحیح نہیں رہتا  ۔ (8/10) امام بخا ری   رحمۃ اللہ علیہ  اس کے متعلق  فر ما تے ہیں  کہ یہ  منکر  الحدیث  ہے ابن  عدی  لکھتے ہیں  کہ اسے  احادیث  وضع  کر نے کی  عا دت  تھی  امام ابن  معین کہتے ہیں  کہ یہ ثقہ  نہیں ہے ۔(میزا ن  لاعتدال 2/224) اس کا شیخ  واصل  بن ابی  جمیل ہے اس کے متعلق یحیٰی بن معین  فر ما تے ہیں کہ اس کی کو ئی حیثیت نہیں  امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ   فر ما تے ہیں  کہ یہ امام  مجاہد  رحمۃ اللہ علیہ اور محکو ل سے اور اس سے امام اوز اعی  مر سل احادیث  بیان  کر تے ہیں ۔(میزا ن الاعتدا ل :4/328) ان تصریحا ت  کی مو جو د گی میں سند کے اعتبا ر  سے یہ روا یت  نا قابل  حجت قرار پا تی ہے  اب ہم دوسر ی بنیا د کا جا ئزہ لیتے ہیں  کہ ان چیزوں  کو انسا نی  نفوس  خبیث  خیا ل  کر تے ہیں  اس بنیا د کی بھی کو ئی حیثیت  نہیں  کیوں  کہ کسی  چیز کو خبیث یا طیب  قرار  دینا انسا نی  نفو س  کا کا م نہیں بلکہ اللہ تعا لیٰ  کا اختیار  ہے اور وہ اپنے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو کسی  چیز  کے متعلق خبیث  یا طیب  ہو نے کے متعلق   مطلع  کر تا ہے ۔ (واللہ اعلم  با لصوا ب ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1ص458
Flag Counter