Maktaba Wahhabi

1672 - 2029
سود سے توبہ کرنے کے بعد سودی مال سے زکواۃ نکالنے کا حکم؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ زید دس سال سے سودی لین دین کر رہا ہے۔آج اللہ سے ڈر کر توبہ کرتا ہے۔اور اپنے کل مال زکوٰۃ نکالتا ہے۔لوگوں کے ذمہ باقی ماندہ سود کو چھوڑ دیتا ہے۔لیکن جو مال اس نے سود ے کر جمع کیا ہے۔اس میں اصل بھی ہے۔آیا یہ مال  پاک ہے یا نا پاک؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سود کا لینا دینا ہر صورت میں حرام ہے۔توبہ کرنے سے معاف ہو جائے گا۔قبل از توبہ حلال و مخلوط از سود مال توبہ کے بعد پاک ہو جائے گا۔توبہ کرنے سے شرک و کفر تک معاف ہو جاتے ہیں۔انہیں گناہ کبائر میں سے سود بھی ہے۔وہ بھی معاف ہو جائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:التا ئب من الذنب کمن لا ذ نب لہ۔گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے۔گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ مسئلہ مذکور میں قرآن اپنے ان الفاظ میں ناطق ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ (بقرہ:275) ترجمہ۔جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں اُٹھتے ہیں مگر جیسے وہ شخص جس کو شیطان نے اچک لیا ہو۔(یعنی مجنون) یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے خریدوفروخت اور سود کو ایک کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت کو حلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام تو جواللہ کی طرف سے نصیحت آنے کے بعد باز  رہے تو وہ مال اسی کا ہے۔جو اس نے پہلے لیا اس کا امر اللہ کے سپر د ہے۔لیکن جو باز نہ آئے وہی اہل نار میں سے ہے۔جو اس میں ہمیشہ سے  رہیں گے۔ اللہ کے قول’’فلہ ما سلف ‘‘سے معلوم ہوتا ہے۔کہ جو مال توبہ سے پہلے اور حرمت سے  پہلے لے چکا ہے۔اس کا رکھنا اس کےلئے جائز ہے۔اس کے واپس کرنے کا صراحتہً حکم نہیں ۔چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں  اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: فمن جاءہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف وامرہ الی اللہ۔الآیۃ۔ای من بلغہ نہی اللہ عن الربوا فانتہی ما ل وصول الشرع الیہ فلہ ما سلف من المعلمة قولہ عفا اللہ عما سلف وکما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم فتح مکہ وکل ربا فی الجاہلیة موضوع تحت قدمی ہا تین واول ربا اضع ربا العباس ولم یا مر ہم برد الزیادات الما خوذة فی الجا ہلیة بل عما سلف کما قال اللہ فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ الخ اور تفسیر مواہب الرحمٰن میں آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے۔یعنی جس شخص کے پاس آگئی نصیحت اس کے رب عزوجل کی طرف سے پس وہ باز رہا۔یعنی بیاج کھانے سے تو جو گزر چکا ہے۔وہ اس کے لئے ہے۔ فائدہ۔یعنی وہ بیاج اس سے واپس نہیں کیا جائے گا۔جو حکم الہٰی کے پہنچنے سے پہلے وہ جمع کر چکا ہے۔الخ اور اگر توبہ کے وقت اصل  رقم اور سود کے مال سے لوگوں کے ذمے باقی ہے۔تو توبہ کے بعد اپنی اصل رقم کو لے لے۔اور سود کو چھوڑ دے۔قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِکُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ(بقرہ:278-279) ترجمہ۔اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔اور چھوڑ دو جو رہ گیا ہے سود سے اگر تم کو یقین ہے۔پھر اگر نہ کرو گے تو خبردار ہو جائو لڑنے کو اللہ اور اس کے رسول سے اور اگر توبہ کرو گےتو تم کو پہنچتے ہیں اصل مال نہ تم کسی پر ظلم کرو او رنہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (الحدیث دہلی )          ۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ 443۔444) فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 91-92 محدث فتویٰ
Flag Counter