Maktaba Wahhabi

1359 - 2029
(465) حلال و حرام حیوانات کے بارے میں قاعدہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا حیوانات کی حلت و حرمت کے بارے میں کوئی قابل اعتماد شرعی قاعدہ موجود ہے کیونکہ قرآن و سنت میں تمام حیوانات کے بارے میں تو وضاحت نہیں ہے‘ کچھ پالتو جانور حرام ہیں اور کچھ حلال‘ اس طرح وحشی جانوروں میں سے بھی بعض حرام اور بعض حلال ہیں‘ لہٰذا اگر حلت و حرمت کےلیے کوئی قاعدہ یا صفات ہیں تو براہ کرم وضاحت فرما دیں تاکہ ہمیں بصیرت حاصل ہو نیز یہ فرمائیں کیا اس سلسلہ میں قیاس کا بھی اعتبار ہے یا نہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! حقیقت ہے کہ اس سوال میں جو یہ کہا گیا ہے کہ کتاب و سنت میں اس کی وضاحت نہیں ہے‘ یہ غلط ہے ہاں البتہ سائل کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اسے کتاب وسنت سے اس کی وضاحت معلوم نہیں ہو سکی ورنہ کتاب و سنت میں تو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بیان فرما دیا ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿تِبیـٰنًا لِکُلِّ شَیءٍ...﴿٨٩﴾... سورة النحل ’’اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے‘‘۔ سنت کے ساتھ ایمان رکھنا اور اس کے احکام کے ساتھ ایمان رکھنا بھی قرآن مجید ہی کے ساتھ ایمان ہے کیونکہ سنت قرآن مجید ہی کا تتمہ اور تکملہ ہے۔ سنت قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل اور اس کے ابہام کی تفسیر ہے قرآن و سنت کے دامن کو تھامنے والوں کیلئے ان میں شفائ‘ نور‘ ہدایت اور استقامت ہے۔ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل اور بیان‘ قرآن و سنت میں موجود ہے لیکن ان میں سے بعض مسائل کی تو باقاعدہ متعین طور پر وضاحت موجود ہے اور بعض مسائل کو قواعد اور ضوابط عامہ کی صورت میں بیان کیا گیا ہے پھر لوگ چونکہ علم اور فہم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایمان و تقویٰ کے حساب سے قرآن مجید سے ان کا ادراک بھی مختلف ہوتا ہے کہ جس قدر ایمان باللہ‘ قرآن و سنت کے دامن کو تھامنے والوں کیلئے ان میں شفا‘ نور‘ ہدایت اور استقامت ہے۔ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل اور بیان‘ قرآن و سنت میں موجود ہے لیکن ان میں سے بعض مسائل کی تو باقاعدہ متعین طور پر وضاحت موجود ہے اور بعض مسائل کو قواعد اور ضوابط عامہ کی صورت میں بیان کیا گیا ہے پھر لوگ چونکہ علم اور فہم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایمان و تقویٰ کے حساب سے قرآن مجید سے ان کا ادراک بھی مختلف ہوتا ہے کہ جس قدر ایمان باللہ‘ قرآن و سنت کے احکام کو قبول کرنے کا جذبہ اور تقویٰ قوی ہوگا‘ ایسے ہی قرآن و سنت کے احکام کے بارے میں علم بھی قوی ہوگا۔ یقیناً قرآن و سنت میں ہدایت‘ علم‘ نور اور تمام مشکلات کا حل موجود ہے۔ ان کا نظام اور منہاج بندگان الہٰی کےلیے سب سے کامل‘ سب سے منفعت بخش اور سب سے زیادہ موزوں ہے لہٰذا جوان کو ترک کر کے انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں اور قوانین کی طرف رجوع کرتا ہے وہ سخت غلط کار ہے کیونکہ وضعی قوانین کثرت سے غلطیوں سے پر ہیں اور اگر ان میں کوئی درست بات ہے تو وہ صرف وہی ہے جو کتاب و سنت سے ہم آہنگ ہے۔ میں اس بھائی کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ ایسے بہت سے ضابط ہیں جن سے حرمت معلوم ہوتی ہے لیکن اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی حیوانات و جمادات پیدا فرمائے ہیں‘ وہ ہمارے لیے حلال ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ہُوَ الَّذی خَلَقَ لَکُم ما فِی الأَر‌ضِ جَمیعًا... ﴿٢٩﴾...سورة البقرة ’’وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیداکیں‘‘۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ اس نے زمین کی تمام اشیاء کو ہمارے کھانے‘ پینے اور نفع کےلیےپیدا فرمایا ہے لیکن ان میں ان حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دی ہیں۔ یہ ایک عام اور جامع قاعدہ ہے جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «وما سکت عنہ فہو عفو» ( البیہقی فی السنن الکبری) ’’جس چیز سے اللہ نے سکوت فرمایا ہے ‘ وہ قابل معافی ہے‘‘۔ آئیے! اب دیکھیں کہ کیا کیا اشیاء حرام ہیں تو سب سے پہلے تو مردار حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّما حَرَّ‌مَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ...﴿١٧٣﴾... سورة البقرة ’’اس نے تم پر مردار حرام کر دیا ہے‘‘۔ گردن سے بہنے والا خون حرام ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُل لا أَجِدُ فی ما أوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّ‌مًا عَلیٰ طاعِمٍ یَطعَمُہُ إِلّا أَن یَکونَ مَیتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا...﴿١٤٥﴾... سورة الانعام ’’کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں‘ ان میں کوئی چیز جسے ھکانے والا کھائے‘ حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مردار (اپنی موت مرا ہوا) جانور ہو یا بہتا ہوا لہو (خون)‘‘۔ سور کا گوشت بھی حرام ہے‘ کیونکہ اسی آیت کریمہ میں ارشاد ہے: ﴿أَو لَحمَ خِنزیرٍ‌...﴿١٤٥﴾... سورة الانعام ’’یا سور کا گوشت‘‘ یہ تینوں چیزیں اس لیے حرام قرار دی گئی ہیں کہ یہ ناپاک ہیں کیونکہ ’’فانہ‘‘ کی ضمیر صرف ’’لحم خنزیر‘‘ ہی کی طرف راجع نہیں ہے جیسا کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کیونکہ استثناء (الاان یکون) یعنی الایہ کہ وہ کھائی جانے والی چیز مردار یا بہتا ہوا لہو یا سور کا گوشت ہو کیونکہ ان میں سے کھائی جانے والی ہر چیز ’’نجس‘‘ ناپاک ہے۔ پالتو گدھے بھی حرام ہیں کیونکہ صحیحین میں حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہؓ کو حکم دیا اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا: «إِنَّ اللہَ وَرَسُولَہُ یَنْہَیَانِکُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، فَإِنَّہَا رِجْس » ( صحیح مسلم) ’’اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے (گوشت) کھانے سے منع فرماتے ہیں کیونکہ گھریلو گدھے ناپاک ہیں‘‘۔ اسی طرح ہر وہ درندہ بھی حرام ہے جو کچلی سے شکار کرتا اور چیر پھاڑ کرتا ہو‘ مثلاً بھیڑیا اور کتا وغیرہ اور ہر وہ پرندہ بھی حرام ہے جو پنجے سے شکار کرتا ہو مثلاً چپل‘ عقاب اور بازوغیرہ۔ اسی طرح ہر وہ جانور جو ماکول اللحم اور غیر ماکول اللحم کے ملاپ سے پیدا ہو تو وہ بھی حرام ہے مثلاً خچر‘ کہ یہ گدھے اور گھوڑی کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ گھوڑا مباح ہے مگر گدھا حرام‘ لہٰذا جب خچر ان دونوں کے ملاپ سے پیدا ہوا تو اس میں حرمت کے پہلو کے غلبہ کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ الحمدللہ یہ تمام مسائل سنت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں‘ اہل علم نے بھی انہیں تفصیل سے بیان کیا ہے اور یہ مسئلہ بالکل واضح ہے اور اگر کسی مسئلہ میں اشکال محسوس ہو تو اس بنیادی قاعدہ کی طرف رجوع کرو جو ہم نے قبل ازیں بیان کیا ہے کہ اصل حلت ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ہُوَ الَّذی خَلَقَ لَکُم ما فِی الأَر‌ضِ جَمیعًا... ﴿٢٩﴾...سورة البقرة ’’وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں‘‘۔ اور جو جانور مشتبہ ہوں یعنی ان کے بارے میں ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حرام ہیں یا حلال تو ان کے بارے میں بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ ان کو ہم ان سے ملتے جلتے جانوروں سے ملا دیں گے اور جو حکم ان کا ہوگا‘ وہی ان کا بھی ہوگا لیکن دلائل کے ظاہر سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حرام جانور اپنی نوع پران ضابطوں کی روشنی میں معلوم ہیں جن کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے جیسا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے: «کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ کُلِّ ذِی مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ » ( صحیح مسلم) ’’کچلی سے شکار کرنے والے تمام درندوں اورپنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندوں کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص420
Flag Counter