Maktaba Wahhabi

1736 - 2029
بیمہ کمپنی سے زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہے یا ناجائز? السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بیمہ کمپنی سے زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہے۔یا ناجائز جس کی صورت یہ ہوتی ہے۔ کہ ایک میعاد مقررہ تک ماہواری ایک رقم مقررہ کمپنی کو ادا کرنی پڑتی ہے۔اگر میعاد مقررہ کے اندر بیمہ کرانے والا فوت ہو جائے گا۔تو رقم مقررہ پوری جس رقم کا بیمہ کرایا ہے۔وارثان کو مل جائے گی۔اور اگر میعاد مقررہ تک زندہ رہا تو بعد گزرنے معیاد کے جمع شدہ رقم جو اس عرصہ میں ادا کی ہے۔مع نفع کے مل جائے گی۔کیا شرع شریف میں ایسا بیمہ کرانا جائز ہے۔؟(محمد امین کلکتہ) الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سوال میں مع نفع کا لفظ تشریح طلب ہے۔جہاں تک ہمیں ان کمپنیوں کے قواعد کا علم ہے۔نفع کا ذکر نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک مقررہ رقم ہوتی ہے۔مثلا ًہزار یا لاکھ کا بیمہ ہوتا ہے۔بیمہ کی رقم ماہوار یا ہر سہ ماہ بعد ادا کی جاتی ہے۔اس ادایئگی کی معیاد مقرر ہوتی ہے۔دیتا دیتا مر جائے تو مقررہ رقم اس کے وارثوں کو مل جاتی ہے۔میعاد تک زندہ رہے تو خود لے سکتا ہے۔اس کی بنا ء دراصل ہمدردی پر ہوتی ہے۔یعنی بیمہ کرانے والا اگر مر جائے تو اس کے وارثوں کو ایک معقول رقم مل سکے اس لئے میں اس کوجائز جانتا ہوں۔انما الاعمال بالنیات (13 جمادی الثانی سن46ھ) فی الواقع اگر بیمہ کمپنیوں کے قواعد و ضوابط میں خط کشیدہ دفع ہو تو معلوم ہوتا ہے۔کہ اس صورت میں مفتی مجیب کے نزدیک بھی یہ چیز جائز نہیں جیسا کہ آپ مرقومہ جواب سے مترسخ ہوتا ہے۔(مولف) شرفیہ بیمہ زندگی یہ ہے کہ مثلا ًایک شخص بیمہ کمپنی سے پانچ ہزار وپے کا بیمہ کراتا ہے۔کہ میں پانچ یا دس سال یا کچھ کم و بیش مدت میں یہ رقم مذکور قسطوں سے ادا کرتا رہوں گا۔مثلا ًبیس پچیس روپیہ ماہوار یا سہ ماہی وغیرہ پھر بعد میعاد مذکور وا وائے رقم مذکورہ مجھ کو وہ میرا روپیہ یا رقم مذکور سب کی سب معہ سود مثلا بجائے پانچ ہزار کے معہ سود چھ یا سات ہزار دیں گے۔اور اگر میں مدت میعنہ مذکورہ میں قبل ادا کرنے رقم مذکور کے مرگیا تو میرے وارث کمپنی سے پورے پانچ ہزار روپیہ وصول کرلیں گے۔اور کمپنی کو دینی واجب ہوگی۔اگرچہ میں نے بجائے پانچ ہزار کے ایک ہی قسط بیس یا پچیس روپے ادا کی ہو۔اورکمپنی اس قسم سے جو بیمہ والوں سے لیتی ہے۔تجارت کرتی ہے پھر تجارت سے جتنا نفع ہوتا ہے۔حساب کر کے بیمہ والوں کو اس کا سود دیتی ہے۔اورکمپنی کا کاروبار سود کا ہوتا ہے۔ اب واضع ہوا کہ اس بیمہ کی حرمت کے دلائل یہ ہیں اول یہ کہ یہ سود کا معاملہ ہے۔لہذا قطعا حرام ہے۔ اس لئے کہ اس میں خطرہ ہے۔ کیا معلوم کے بیمہ والا مدت مذکورہ میں زندہ رہےگا۔یا نہیں رقم ادا کرے گا۔یا نہ اگر مرگیا توجوا ہوا اگرزندہ رہا اور رقم ادا کی تو سود کھائے گا۔اللہ نے قرآن میں فرمایا ! وَأَحَلَّ ٱللَّہُ ٱلْبَیْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَو‌ٰ پ3ع6ایک اور جگہ اللہ نے فرمایا۔ یَسْـَٔلُونَکَ عَنِ ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَیْسِرِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْ فِیہِمَآ إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَآ أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا پ2ع11﴿٢١٩﴾ ایک اور جگہ اللہ نے فرمایا: یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْخَمْرُ وَٱلْمَیْسِرُ وَٱلْأَنصَابُ وَٱلْأَزْلَـٰمُ رِجْسٌ پ7ع2 وان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن الخمر والمیسر والکولبة والبخبیر وقال کل مسکر حرام (مشکواۃ جلد 2 صفحہ 318) سوم یہ کہ تعاون علی الاثم ہے۔ تَعَاوَنُوا۟ عَلَی البر والتقوی وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَی ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ ۚ (پ6ع5 )لعل فیہ کفایة لمن لہ درایة (ابو سعید شرف الدین دہلوی) (فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ۔صفحہ۔150) تشریح از قلم حضرت العلام مولناٰ عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 126-127 محدث فتویٰ
Flag Counter