Maktaba Wahhabi

1117 - 2029
بھاؤ بتانے میں دغا جائز نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ آج کل جو دوکاندار بازار سے چیزیں کر محلہ کی دوکانوں میں فروخت کرتے ہیں اس طریقہ پر کہ بازاار، (منڈی) سے سستا لیتے ہیں اور اپنی دوکان پرمہنگا بیچتے ہیں مثلاًبازار سے دس سیر چیز خرید کر دو کا ن پر ۸سیرنی روپیہ بیچتے ہیں اور اس چیز کا نرخ بازار میں دس سیرنی روپیہ ہے اس حالت میں ان کا بازار کے نرخ سے نقدی پر کم دینا جائز ہے یا سود ہے ہر دو مسائل کا جواب تسلی بخش عنا یت فرما دیں ۔ اس طرح زید ایک دوکاندار ہے گندم کا بازار ۲۰ سیرنی روپیہ ہے مگر جب بکر زید سے نقد گندم لنیے آتا ہےتو زید اس کو پورے ۲۰ سیر گندم دیتا ہے اور جب بکر ا اس سے ادھار گندم لینے آتاہے تو فی روپیہ ادھار پر ۱۶ سولہ سیر گندم دیتا ہے تو یہ چار سیر کی کمی سو د ہو گی یا نہیں ؟      ،  (غلام محمد ڈار گوجرانوالہ(  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! دونوں صورتیں جائز ہیں نیل الادظارجلد ہ ص ۱۳ملا حظہ ہو ہاں یہ ضروری ہے کہ بھاؤبتلانے میں دغا نہ کرے بلکہ صاف صاف کہے ، یعنی یہ نہ کہے کہ منڈی میں بھی یہی بھاؤ ہے بلکہ صاف کہہ یہ بھا ؤ دونگا خریدار کی مرضی ہو لے یا نہ ہو لے  (۱۹فروری۱۵؁ء) تشریح :۔  ایسی بیع جائز ہے لعموم الا دلتہ ابفا ضیت بجواہ کفو لہ تعالی احل اللہ البیع و حرم الربواد و قولہ تعالی یا یہا الذین امنو لا تا کلو ا امولکم بینکم با بطل الاان تکون تحارت عن تراض منکم و غیر ذلک من النصوص قال فی النیل ہن ۱۳جلدہرہو مذ ہب اشا فعیہ وا لحنفیہ والجمہورالخ ومن قال یحرحر بیہ الشئ با کثر من سعر یو لا جل انسأتمسک بحدیث ابی حریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ مرفوعا من با ع بیعتین فی بیعت فلہ دار کہا ادا الر بار راہ ابوداود وفیہ ان فی استا د محمد بن عمر و بن علقة قال فی النیل ہن ۱۶جلدہ و قد تکلمہ فیہ غیرہ واحدقال المنذری و ال مشہور عنہ من روایة الدراوردی و محمد بن عبداللہ الا نصاری انہ  صلی اللہ علیہ والہ سلم  نہی عن بیعتین فی بیة قا ل ہن ۱۳ج۵ولا حجة فیہ علی المطلوب و لو سلتا ان تلک الر وا یة التی تفر د بہا ذلک الر ادی صا لحة للا حتجاج لکا ن احتما لہا لتفسیراخا رج عن محل النزاع کہا سلف ہن۱۶ج ہ عن ابن رسلان روہو ان یسلفہ دینا رانی تفیز حنطة الی شہر  فلما حل الا جل طالبہ با لحنطة قال یعنی ا لقفییز الذی لک  علی الی شہر  ین بقفیز ین  نصلا ذلک بیعتین فی بیعة لا ن البیع الشانی قد دخل الا علی دل نیر دالیہ اوکحما و ہوا لا دل کذانی شر ح السنن لا بن رسلا ن قا د حا نی الا ستد لا ل بحا علی المتنا زع فیہ علی ان غا یة ما الدة المیبع من البیع اذا وقع علی ہذہ الصورة وہی ان یقو ل نقد اکذاو نسئة بکذا لا اذا قال من او ل ا لا مر نسئة بکذا فقظ و کان ا کثر من سعر یومہ مع ان  المسکین بہذا الروایة یمنون من ہذہ الصورة ولا یدل الحدیث علی ذلک فلد لیا اخص من الدعوی وقد جمعنا رسا لة فی ہذہ المسئلة وسمینا ہا شفا ما لغدل فی حکم زیا دة الثمن ببحود الاجل و حققنا ہا تحقیقا لم نسبق الیہ واللہ المہ با لصواب کتبہ محمد عبداللہ     (سید محمد نذیر حسین فتاوی نذیر یر۲ ج ۶)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 394
Flag Counter