Maktaba Wahhabi

791 - 2029
(330) تکبر کے بغیر کپڑے لٹکانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا تکبر کے بغیر کپڑے لٹکا نا بھی حرام ہے یا نہیں ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مردوں کے لیے کپڑے لٹکانا حرام ہے "خواہ یہ تکبر کے لیے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے'البتہ اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو پھر  اس کی سزا زیادہ سنگین اور شدید ہے' جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی  حدیث صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ((ثلاثة لا یکلمہم اللہ یوم القیامة‘ولا ینظر الیہم ّولا یزکیہم ّولہم عذاب  الیم المسبل (ازارہ) و2014-03-27المنان ‘والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب ))(صحیح مسلم‘ الایمان ‘باب غلظ تحریم اسبال الازار المن بالعطیة___الخ‘ ح : ١-٦) "تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ  نہ کلام فرمائے گا'نہ ان کی طرف(نظر رحمت سے)  دیکھے گا' نہ انہیں پاک کرےگا اورا ن کے لیے دردناک عذاب  ہوگا (1) کپڑے  کو لٹکانے والا (2)احسان جتلانے  والا اور(3) جھوٹی قسم کے ساتھ اپنے سودے بیچنے والا۔" یہ حدیث اگرچہ مطلق ہے لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ  کی حدیث کی وجہ سے مقید ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا: ((من جر  ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامة )) (صحیح البخاری ‘اللباس ‘باب من جر ازارہ  من غیر خیلاء‘ ح :٥٧٨٤ وصحیح مسلم  باب تحریم جر الثواب خیلاء_____‘ ح :٢-٨٥) جو شخص ازراہ  تکبر کپڑا لٹکائے گا تو قیامت کے دن  اس کی طرف  ( نظر رحمت سے) دیکھے گا بھی نہیں۔"        ((مااسفل منالکعبین من الازار  فہو  فی النار)) (صحیح البخاری ‘اللباس‘باب مااسفل منالکعبین من الازار  فہو  فی النار‘ ح:٥٧٨٧) "جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم کی آگ میں ہوگا۔  جب یہ دو مختلف  سزائیں ہیں تو پھر مطلق  کو مقید  پر محمول  کرنا ممنوع ہے کیونکہ مقید پر محمول کرنے کے قاعدہ کے لیے شرط  یہ ہے کہ دونوں  نصوص کا حکم ایک ہو اور جب حکم مختلف  ہو تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ مقید  نہیں کیا جاسکتایہی وجہ  ہے کہ آیت  تیمم کو جس میں اللہ  تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَامسَحوا بِوُجوہِکُم وَأَیدیکُم مِنہُ ۚ ... ﴿٦﴾... سورةالنساء "منہ اور ہاتھوں کا مسح ( یعنی تیمم ) کرلو۔'کو اس آیت وضو کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا جس میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿فَاغسِلوا وُجوہَکُم وَأَیدِیَکُم إِلَی المَر‌افِقِ...﴿٦﴾... سورة المائدة "منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولیا کرو۔" لہذا تیمم  کہنیوں تک نہیں  ہوگا ۔اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں امام مالک : اور کئی دیگر محدثین نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے  کہ نبی ﷺ نے فرمایا : "((ازارہ المسلم الی نصف الساق ولاحرج ّاو :لا جناحّ فیما بینہ  وبین  الکعبین ‘ماکان اسفل من الکعبین فہو فی النار‘ومن   جر ازارہ  بطراً لم ینظر  اللہ الیہ) (سنن ابی داود اللباس باب فی قدر موضع  الازار‘ح :٤-٩٣ وسنن ابن ماجہ ‘ ح: ٣٥٧٣ والسنن الکبریٰ للنسائی :٥/٤٩-‘ ح:٩٧١٦ والموطا مالک  :٢/٩١٤‘٩١-) " مومن کا تہ بند نصف  پنڈلی  تک ہوتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔یا یہ فرمایا کہ اس میں کوئی  گناہ نہیں ۔۔۔جو نصف پنڈلی  اور دونوں ٹخنوں کے درمیان ہو اور جو ٹخنوں سے نیچے  ہو وہ جہنم کی آگ  میں ہوگا اور جس  شخص نے ازراہ تکبر  اپنا کپڑا لٹکایا 'اللہ تعالیٰ اس کی طرف  (نظر رحمت  سے) دیکھے گا بھی نہیں۔"  اس حدیث میں  نبی ﷺ نے دو صورتیں بیان فرمائی ہیں اور  ان  کی سزا ؤں کے مختلف  ہونے کیوجہ سے ان کا حکم بھی مختلف  بیان فرمایا ہے" تو گویا یہ دو مختلف  فعل  ہیں جن کا حکم  اور سزا بھی مختلف ہے۔اس تفصیل سے اس شخص کی غلطی  واضح  ہوجاتی ہے جو نبی ﷺ کے فرمان (( مااسفل من الکعبین من الازار فھو  فی النار)) کو  فرمان نبوی ( من جر ثوبہ خٰلاء لم ینظراللہ الیہ)) کے ساتھ مقید کرتا ہے۔جب ان بعض  لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے'جنہوں نے اپنے کپڑے  کو ٹخنوں  سے نیچے لٹکا رکھا ہوتا ہے 'تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ازراہ  تکبر  ایسا نہیں کیا تو ان سے  ہم یہ عرض  کریں گے کہ کپڑا نیچے  لٹکانے کی دوقسمیں ہیں۔ایک وسم تو وہ ہے جس میں انسان کو صرف  مخالفت کے مقام  یعنی ٹخنوں سے نیچے  کی جگہ پر عذاب  دیا جائے گا اور اس سے مراد وہ ہے جو اپنے  کپڑے کو تکبر  کے  بغیر ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت  کے دن اس شخص سے کلام نہیں فرمائے گا'نہ اس کی طرف (نظر رحمت سے )دیکھے گا 'نہ اسے پاک کریگا' بلکہ اس کے یے درد ناک عذاب ہوگا اور یہ سزا اس شخص کے ؛لیے ہوگی جو اپنے  کپڑے کو ازراہ تکبر لٹکائے ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص258
Flag Counter