Maktaba Wahhabi

469 - 2029
چہرے کے پردے کی فرضیت کے متعلق حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بعض علما کا خیال ہے کہ عورت کے چہرے کا پردہ فرض نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم سےچہرے کو ڈھانپنا ثابت نہیں ہوتا ان کا کہنا ہے کہ اگر چہرے کےپردے کو فرض مان لیا جائے تو اس امت کا ایک بڑا حصہ ایک فرض کےتارک ہونے کی بنا پر جہنمی قرار پاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ابتدائے اسلام میں عورتیں زمانہ جاہلیت کی طرح قمیص اور دوپٹے کےساتھ نکلتی تھیں جبکہ ان کا چہری کھلا ہوتا تھا اور شریف عورتوں کا لباس ادنیٰ درجہ کی عورتوں سےمختلف نہ تھا۔ اس سے بےحیائی اور بے غیرتی کا دروازہ کھلتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے سدباب کے لئے حکم دیا کہ ‘‘ اےنبی ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی خواتین کو حکم دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کےگھونگھٹ ڈال لیا کریں۔’’ (۳۳/الاحزاب:۵۵) یہ آیت کریمہ خاص چہرے کوچھپانے کےلئے ہے کیونکہ ‘‘جلابیب’’ جمع ہے ‘‘جلباب’’کی،جس کا معنی بڑی چادر ہے اور ‘‘ ادنی ٰ’’کا معنی لٹکانا ہے، یعنی چادر کے ایک حصے سے نیچے لٹکائیں،یہی مفہوم گھونگھٹ ڈالنے کا ہے مگر اصل مقصد کی کوئی خاص وضع نہیں بلکہ چہرے کو چھپانا مقصود ہے، خواہ گھونگھٹ سے چھپایا جائے یا نقاب سے یا کسی اور طریقے سے یہ طریقہ اختیار کرنے سے چہرے کا پردہ خود بخود آجاتا ہے۔ دراصل عور ت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مر د کے لئے عورت کےتما م بدن سے زیادہ پر کشش ہوتا ہے اگر اسے ہی حجاب سےمستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی احکام بے سود ہیں۔ مفسرین نے درج بالا آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ چنانچہ ترجمان القرآن سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘ا للہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کےلئے اپنے گھروں میں سے نکلیں تو سرکے اوپر سے اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں۔’’(تفسیرابن کثیر) حضرت امام ابن سیرین ؒنے حضرت عبیدہ سلمانی ؒ سے ان الفاظ کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے عمل کرکے دکھایا کہ اپنے چہرے اور سر کو ڈھانپ لیا اور صرف اپنی بائیں آنکھ کو کھلا رہنے دیا۔ (تفسیر ابن جریر، ص:۲۲،ج۲۹) امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ آیت حجاب کےنزول سے قبل عورتیں جلباب کے بغیر گھروں  سے باہر نکلا کرتی تھیں اور مردان کے چہرے اور ہاتھ دیکھتے تھے اور اس وقت عورت کے لئے جائز تھا کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کو ننگا رکھے اور اس وقت ان اعضا پر مرد کی نگاہ پڑنا بھی جائز تھا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے پردے کے احکام نازل فرمائے توعورتوں نے مردوں سےمکمل حجاب اختیار کرلیا۔ (حجاب المرأۃولباسہافی الصلوۃ) بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس آیت سےمراد گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ ‘‘بکل مارنا’’ہے ۔اس توجیہ میں جو کچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے، تاہم توجیہ عقل و نقل کےخلاف ہے کیونکہ یہ آیت سورہ احزاب کی ہے جو 5ہجری میں نازل ہوئی اور واقعہ افک شوال 6 ہجری میں پیش آیا۔ سیدہ عائشہؓ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتیں ہیں کہ ‘‘ میں اسی جگہ بیٹھی رہی ، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی، ایک شخص صفوان بن معطل سلمیؓ اس مقام پر آئے اور دیکھا کہ کوئی سورہا ہے اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے اس نےمجھے دیکھا تھا اس نےمجھے دیکھ کر’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی، میں نے فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سےڈھانپ لیا۔ (صحیح بخاری ،المغاری:۴۱۴۱) اس وضاحت سےمعلوم ہوا کہ صحابیات ؓ کے ہاں چہرے کا پردہ رائج تھا حتیٰ کہ حالت احرام میں بھی ازواج مطہرات او رعام خواتین اسلام نقاب کےبغیر اپنے چہروں کو اجانب چھپاتی تھیں، جیساکہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ‘‘ ہمارے سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اور ہم عورتیں رسول اللہﷺ کے ہمراہ حالت احرام میں ہوتی تھیں،جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزرجاتے تو چہرہ کھول لیتی تھیں۔ (ابوداؤد،المناسک:۸۳۳) حضرت اسماؓ کےمتعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ احرام کی حالت میں اپنے چہرے کو اجانب سے ڈھانپ کررکھا کرتی تھیں۔ (مستدرک حاکم،ص:۴۵۴،ج ۱) درج بالا حقائق کےپیش نظر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شریعت اسلامیہ میں عورت کےلئے چہرے کو اجانب سے مستور رکھنے کا حکم ہے اور اس پر خود رسول اللہﷺ کے زمانہ سے عمل کیا جارہا ہے اور عورتوں کےلئے ایسے کرنا قرآن کریم کی تجویز ہے۔ سوال کے آخر میں بڑی عجیب بات کہی گئی ہے کہ کسی چیز کی فرضیت سے ، اس لئے انکار کردیا جائے کہ اس کےترک سے اکثریت جہنمی قرار پاتی ہے ۔بجائے اس کے کہ اپنی بد عملی کا علاج کای جائے اور کوتاہی کی اصلاح کی جائے الٹا اس کی فرضیت سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ کل کوئی منچلا اٹھے گا اور کہہ دے گا کہ نماز فرض نہیں ہے کیونکہ اس کے ترک سے اکثریت جہنمی ہوتا قرار پاتی ہے۔ مختصر یہ کہ چہرہ کا پردہ فرض ہے اور قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور تعامل صحابہ کرام ؓ کا یہی تقاضا ہے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص406
Flag Counter