Maktaba Wahhabi

1221 - 2029
عیب دار چیز کو بیچنا جائز نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میں سبزی کا تاجر ہوں، میرا ایک شراکت دار بھی ہے جس نے ایک ہزار کلومیٹر کی مسافت سے چالیس قنطار زرد آلو خریدے اور جب یہ چھوٹے دکاندار کو بیچے جانے لگے تو معلوم ہوا کہ یہ خراب ہیں، ان کو کیڑا لگا ہوا ہے اور یہ کھانے کے قابل نہیں ہیں۔ چھوٹے دکانداروں کو یہ میں نے بیچے اور مجھے علم نہ تھا کہ ان کو کیڑا لگا ہوا ہے اور کھانے کے قابل نہیں ہیں۔ میرا ساتھی جو انہیں خرید کر لایا تھا اسے اس کا اسی وقت علم ہو گیا تھا جب اس نے انہیں اپنے سٹور میں رکھا تھا لیکن اس نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ سال مال خراب ہے، ہاں البتہ یہ کہا کہ چند دانوں میں کیڑے ہیں۔۔۔ تو اس کے بیچنے کے بارے میں کیا حکم شریعت ہے؟ ان چھوٹے دکانداروں کے بارے میں کیا حکم ہے جن کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ مال خراب ہے اور انہوں نے پھر بھی اسے بیچ دیا؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! عیب دار چیز کو اس کے عیب کے بتائے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تو اس دھوکا کی ایک قسم ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے: (من غشنا فلیس منا) (صحیح مسلم‘ الایمان‘ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا‘ ح: 101) "جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔" آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: (البیعان بالخیار مالم یتفرقا فان صدقا و بینا بورک لہما فی بیعہما‘ وان کتما وکذبا محقت برکة بیعہما) (صحیح البخاری‘ البیوع‘ باب اذا بین البیعان...الخ‘ ح: 2079 وصحیح مسلم‘ البیوع‘ باب الصدق فی البیع والبیعان‘ ح: 1532) "بیع کرنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ الگ نہ ہوں۔ اگر وہ سچ بولیں اور ہر چیز واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہو گی اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت ختم ہو جائے گی۔" جو شخص دھوکا دے اور عیب والی چیز کو صحیح چیز کے بھاؤ بیچے اسے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرنی چاہیے، اپنے فعل پر نادم ہونا چاہیے اور جس کو دھوکا دیا ہے اسے اس کا حق واپس کر کے صلح کر لینی چاہیے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب محدث فتوی فتوی کمیٹی
Flag Counter