Maktaba Wahhabi

1767 - 2029
دارالحرب میں سود لینا جائز ہے یانہیں؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ دارالحرب میں سود لینا جائز ہے یانہیں؟ب۔ہندوستان دارالحرب ہے یادارالسلام؟ مروجہ دلالی اور آڑھت کی شرعی حیثیت الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سود دینا مسلمان موحد کے لئے ہر جگہ حرام ہےخواہ درالاسلام ہو یا دارالحرب۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ ا۟لَّذِینَ یَأْکُلُونَ ٱلرِّبَو‌ٰا۟ لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ ٱلَّذِی یَتَخَبَّطُہُ ٱلشَّیْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ ذَ‌ٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْبَیْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَو‌ٰا۟ ۗ وَأَحَلَّ ٱللَّہُ ٱلْبَیْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَو‌ا۟ )بقرہ پ3 ع38( جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (اپنی قبروں سے) اس طرح سے اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جس کو آسیب نے لپٹ کر دیوانہ بنادیاہو یہ اس لیےکہ وہ کہا کرتے تھے ہکسی چیز کا بیچنا بھی سود کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کوحلال کیا ہے اورسود کو حرام کیاہے۔اور فرمایا! یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّہِ وَرَسُولِہِۦ )بقرہ پ3 ع38)اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جوسود لوگوں کے زمہ باقی رہ گیا ہے۔اس کو چھوڑ دو اگر تم  ایمان دار ہو۔اگر تم ایسا نہ کرو تو   اللہ اور رسول سےجنگ کےلیے آمادہ ہوجائو۔ یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْکُلُوا۟ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ أَضْعَـٰفًا مُّضَـٰعَفَةً صلی اللہ علیہ وسلم وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٣٠﴾ (آل عمران پ4 ع14) اے ایمان والو سود در سود دگنا چوگنا مت کھاؤ اور اللہ سے ڈروتاک تم اپنی مراد کو پہنچو۔ یہ تینوں آیات کریمہ مطلق اور عام ہیں کسی خاص جگہ کےلئے مخصوص نہیں ہیں لہذاہر جگہ سود لینا دینا حرام ہے۔خواہ دارالحرب ہو یا دارالاسام ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے بھی تعمیم معلوم ہوتی ہے ۔اور بعض الناس جو  دارالحرب میں سود لینے کے جواز میں حدیث  لا ربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب پیش کرتے ہیں وہ صحیح متصل نہیں ہے مزید تفصیل درایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں ہے لہذا نصوص قرآنیہ قطعیہ کے مقابل حدی ظنی ضعیف مرسل کیسی طرح قابل حجت نہیں ہے جیسا نور الانوار حسامی اور توضیح تلویح وغیرہ میں اس کی تشریح موجو دہے کہ خبر واحد ظنی اور پھر ضعیف مرسل سے کتاب اللہ تخصیص نہیں کر سکتے ۔ ب۔فقیا حنفیہ کے نزدیک دار لاسلام کی یہ تعریف ہے کہ جس جگہ آزادی سےقرآن مجید کی تلاوت اور وعظ و نصیحت کرسکتے ہوں پنچ وقتی نماز  کی نماز وغیرہ اد کر سکتے ہوں۔چنانچہ  تنویر الابصار او الدر المختارو فصول عمادی وطحاوی وغیر میں ہے کہ تصیر دارالحرب دارالاسلام باجراء احکام الاسلام کجمعة وعید اسلامی احکام نماز جمعہ و عید وغیریہ کے جاری کرنے سے دارالاسلام ہوجاتا ہے ہندوستان میں پانچوں نمازیں جماعت سے اورجمعہ وعید کی نماز اسلامی شان سے مسلمان ادا کرتے ہیں وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں آپ ہی فیصلہ کر لیں کہ ہندوستان کیا ہے۔ از۔علامہ عزیززبیدی ۔وار برٹن مروجہ دلالی اور آڑھت کی شرعی حیثیت ایک استفتاء اور اس کا جواب 1۔دلالی۔جہانیاں سے مولانا عبد السلام  اور مولاناحافظ عبد القادر صاحب لکھتے ہیں کہ1۔ہر ملک میں جو دلالی کا جو نظام رائج ہے۔با اجرت یا بلا اجرت و ہ شرعا جائز ہے یانہیں؟ 2۔کیا آڑھتی بھی اس ضمن میں آتے ہیں یا نہیں؟(مختصرا( الجواب احناف کا خیال ہے کہ لوگ اس کے ضرورت مند ہیں۔لہذاجائز ہے اجرت پر ہو تو وہ متعین ہونے چاہیے۔حدیث سئل عن محمد بن سلمة عناجرة السمسا ر فقال اوجوانہ لا باس بہوان کمان فی الا صل فلا سد لکمثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز نجوذ لحاجة الناسالیبہ کمدخول الحمام )رد المختار ج5 ص 53( اگر فقیا ء کا یہ اصول تسلیم کر لیا جائے توس پھر دور حاضر میں شاید ہی کوئی بات ممنوع رہ جائے کیونکہ اکثر منہیات عام بھی ہیں اور لوگ ان کے ضرورت مندبھی جیسے سودی کاروبار۔ امام نووی نے حضرت امام بو حنیفہ کا جو قول نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے لوگوں کی ضروت نہیں بلکہ اصل جذبہ الدین  نصیحہ ہے۔ اجرت پر ہویا بلا اجرت حدیث وقال عطا ء ومجاہد والبو حنیفة یجوذ بیع الحاضر للبادی مطلقا لحدیث الدین النصیحة)شرح مسلم ص4/6 کتاب البیوع( اگر دلالی بلامعاوضہ ہو تو امام بخاری کے نزدیک بھی جائز ہے کیونکہ یہ بات  الدین  نصیحہ کے تحت آجاتی ہے۔حدیث اما م بخاری کی تبویب سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ باب ہل یبیع حاضر لباد بغیرا جرو ہی یعینہ او ینصحہ وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا ستنصح احدکم اخاہ فلینصح لہ ور خص فیہ عطاء )بخاری کتاب البیوع ج1 ص289( لیکن کتاب لاجارۃ باب اجرا السمسرہ صفحہ جلد1۔303 میں دلالی کی اجرت کو جازئز قرار دیا ہے۔حدیث قال ولم یرابن سیرین و عطاء وابراہیم والحن باجرا لسما ربا سا الخ معلوم ہوتا کہ امام بخاری کے نزدیک یہ معروف’’ جعل ‘‘ہے وہ دلالی نہیں جو  لا یبیع حاضرلا لباد  میں ہے اصل میں یہ ایک تکلیف ہے جو عموم حدیث کے خلاف ہے۔ شوافع کا نظریہ ہے کہ عام ضرورت کی شے کوئی اجنبی دیہاتی لے کر آتا ہے شہریاسے کہتا ہے کہ اسے میرے پاس چھوڑ جائیں بتدریج اسے گراں قیمت پر بیچ کر ددوں گا۔حدیث قال اصحابنا ولامرادیہ ان یقدم غریب من البادیة بمتاع تعم الحاجة الیہ لیبیعہ بسحر یومہ فیقول لہ البلدی اترکہعندی لا بیعہ علی التدریج باغلی )نووی شرحح مسلم ص 4/6( صحیح یہ کہ بطور پیشہ جیسا کچھ یہ نظام دلالی رائج ہوگیا ہ جائز نہیں ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ لا یبیع حاضرلا لباد  )مسلم بخاری( کوئی شہری دیہاتی کےلیے دلالی نہ کرے۔ حضرت ابن عباس سے کہا گیا کہ حاضر لباد کا کیا مطلب ہے۔؟ فرمایا ! اس کی دلا لی نہ کرے۔ حدیث فقلت لا بن عباس ما قولہ حاضر لباد ؟ قال لا یکن لہ سمسارا(مسلم ص 4/4 بخاری ج1 ص303( امام بخاری اور دوسرے جن ائمہ کے نزدیک اس سے مراد بہ اجرت دلالی ہے ان کی دلیل وہ روایت ہے جس کے آکر میں آیا ہے کہ الا یہ کہ کوئی خیر خواہی کے جزبہ سے کرے۔ گو علی الانفرادیہ روایات متکلم فیہ  ہیں تاہم بالکلیہ بیکار بھی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اس سے دلالی مراد لینا محل نظر ہے صرف یہ کہ وہ اسے مناسب معلومات  مہیا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس کا قرینہ وہ روایت ہے جس میں آیا ہے کہ گو وہ باپ یا بھائی کیوں نہ ہو۔ حدیث  وان کان اباہ او اخاہ (ابو داود ونسائی) وان کان اخاہ لا بیہ وامہ)بخاری و مسلم عن انس( ظاہر ہے کہ اگر باپ یا بھائی یا ماں باپ کی طرف سے سگا بھائی ہو تو وہاں معاوضہ کی بات تو نہیں ہو تی لیکن اس کے باوجود فرمایا اس کی دلالی نہ کی جائے۔ محرک۔ اس کی اصلی وجہ خود حدیث میں مذکور ہے کہ اجارہ دار کا خاتمہ ہو او آزاد انہ خریدو فروخت ہو تاکہ خلق خدا کو آسانی سے روزی میسر ہو۔ حدیث لا یبیع حاضر لباد د عواالناس یرزق اللہ بعضہم من بعض)مسلم 6/4( اگر صاحب مال اپنا مال کے کر خود گاہک سے معاملہ کرے تو بھاؤ اور نرخ میں جو گرانی راہ پاجاتی ہے اس کا یقینا سد باب ہو جائے۔ وذلک یتضمن الضروفی حق الحاضین فانہ لم ترک البادی لکن عادة باعہ وخیصا)حاشیہ نسائی( جب ہردیہاتی اپنے اپنے گھروں میں گندم باغ اور  دوسرا مال خود بیج سکتا ہے تو شہر میں جا کران کوکیا ہوجاتا ہے زیادہ سے زیادہ چند دن کی ناتجربہ کاری ہے اور وہ خود گھروں میں بھی برداشت کرلی جاتی ہے دوسرا اس اس کا سبب نجش ہے وہ سچ مچ مسابقت کا نتیجہ  ہو یا صرف  فریب کا بہر حال یہ دونوں دلالی کی زمین سے ابھرتے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی روکا ہے فرمایا:ان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن النجش )مسلم صفحہ 3۔4 و بخاری صفحہ 1۔287( نجش کے معنی بد نیتی پر مبنی بولی دینا بھی مراد لی جائے تو بھی دوسری حدیث سے اس مسابقت اور بڑھ چڑھ کر بولی دینے سے منع آگئی ہے گو وہ صرف لینے کے ارادہ سے بھی ہو فرمایا۔ لا یبیع بعضکم علیبیع اخیہ حتی  یبتا ع ا ویذر )نسائی ص 3۔215( ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دلالی کی دردسری درمیان سے نکل جائے تو یقینا اشیاء اس قدر گراں نہ ہوں۔ہاں بعض استثنائی صوتوں میں جبکہ اس سے خصوصی اعانت ہو تو اس کی کوئی شخص بولی پر بولی بھی دے سکتا ہے اور کوئی اس کی دلالی بھی کر سکتا ہے کیونکہ یہاں مقصد کاروبار نہیں اعانت ہے وایں  چیزے دیگرے۔ عن جابر بنعبد اللہ ان رجلا اعتق غلا ماہ عنوبر فاتاج فاخذہ النبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال من یشتریہ من فاشتراہ نعیم بن عبد اللہ بکذاو کمذافدفعہ الیہ)بخاری ص287( ہم بہر حال اس سسٹم کے قطعا خلاف ہیں اور مندرجہ  الااحادیث سے ہمیں یہی بات قرین حکمت نظر آتی ہے کہ خریدوفروخت کے سلسلے میں جو دلالی راہ پاگئی ہے وہ  اثمہما اکبر من نفعہما کے قبیل کی چیز ہے خود صحابہ کا  یہ تاثر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سمسار کے نام کو بدل دیا تھا کیوں کہ اسے نیک شہرت حاصل نہیں ہے۔ آڑھتی آڑھتی اگر اجناس خود خریدتا اور آگے بیچتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہاں اگر دلالی کا پیشہ بھی اختیار کرتا ہے تو یہ صرت صرف اسی حد تک ناجائز ہے خواہ وہ کمیشن کے نام پر لیں یا چونگی کے نام پر سب دلالی ہے۔ دونوں صوتوں میں ہمارے بعض اہل حدیث علماء کے نزدیک یہ دلالی جائز ہے (فتاوی ثنائیہ( مولانا شرف الدین نے  بعض صوتوں میں ان سے اختلاف کیا ہے باقی جماعت اسلامی مولنا سید ابو الاعلی مودودی کے نزدیک بھی دلالی کی کسی حد تک گنجائش ہے۔مگر تسامح سے خالی نہیں ہے۔حضرت امام شوکانی کے نزدیک دلالی شرعا  ممنوع ہے خواہ اس کی کوئی صرت ہو۔ پھر اسی سلسلے کی تخصیصات کا رد کرتے ہوئے امام ابن دقیق العبد کا قول نقل کر کے تفصیل سے جواب دیاہے۔   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 182-186 محدث فتویٰ
Flag Counter