Maktaba Wahhabi

1027 - 2029
نظام بیمہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ وزیرآباد سے محمد داؤد سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیمہ کاری کے متعلق کچھ اختلاف ہوگیا ہے۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ نظام بیمہ اسلام سےمتصادم نہیں ہے۔ لہذا یہ جائز ہے اوران کے بقول بہت سے علماء بھی ا س کے حق میں فتویٰ دے چکے ہیں۔جن میں مولانا ثناء اللہ امرتسری  رحمۃ اللہ علیہ  بھی شامل ہیں۔کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بلاشبہ بیمہ کی خشت او ل تعاون محض اور امداد باہمی تھی لیکن جب نظام یہودیانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا تو اسے خالص کاروباری شکل دے دی گئی پھر سود دھوکہ اور جوئے جیسی بدترین عناصر کو اس میں شامل کرکےاس پر سے تعاون محض کی چھاپ کو اتار دیا گیا اور اس میں موجود مفاسد کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1۔سود طالب بیمہ جو رقم اقساط کی صورت میں کمپنی کو ادا کرتا ہے۔اگرحادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے تو یہ ایک جائز صورت ہے۔لیکن اسے ادا کردہ رقم سے زیادہ کہیں رقم ملتی ہے۔یہ زائد  رقم سود ہے جس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے۔سود بھی اسی کا نام ہے۔کہ ایک آدمی کچھ رقم دیتاہے۔پھر ایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض کچھ زائد وصول کرتاہے۔جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''کہ تم صرف اپنی ر قم کے حقدار ہو۔'' 2۔جوا اس کاروبار میں جوے کاعنصر بھی پایا جاتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسامعاہدہ ہے۔جس میں فریقین اس بات کاعہدکرتے ہیں کہ وہ دوسرے کو ایک مقررہ رقم جب متعین حادثہ پیش آئے گا۔تو ادا کرے گا۔ اس لحاظ سے بیمہ کے جوا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔کیوں کہ جوآدمی ایک قسط ادا کرنے کے بعد مرجاتاہے۔تو ا س کےنامزد کردہ وارث کو اس کی رقم سے کئی گنا  زیادہ رقم ملتی ہے۔تھوڑی سی محنت کرنے سے اتفاقی طور پر بہت زیادہ ہتھیا لینے کو میسر کہتے ہیں جوقرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے۔ 3۔دھوکہ بیمہ کرتے وقت نہ تو طالب بیمہ کو علم ہوتا ہے کہ وہ  کتنی اقساط ادا کرے گا۔اور نہ بیمہ کمپنی جانتی ہے کہ وہ کیا وصول کرے اور اسے کیاکچھ اداکرنا ہوگا۔لہذا یہ سب''اندھاسودا'' ہے۔جس میں غرور یعنی دھوکے کاپہلو نمایاں طور پر موجود ہے۔اور اس دھوکہ دہی سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔مذکورہ  تین خرابیوں کے علاوہ بھی بے شمار قباحتیں پائی جاتی ہیں۔جن کے بیان کرنے کی فتویٰ میں گنجائش نہیں۔سوال میں مولاناثناء اللہ امرتسری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ایک فتوے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان کے فتوے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے موجودہ بیمہ کاری کے جواز کی طرف اشارہ ہوتاہو۔تفصیل کے لئے فتاویٰ ثنائیہ صفحہ 371 ج2 کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے اس میں مولانا داؤد راز دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  اور مولانا شرف الدین  رحمۃ اللہ علیہ  کے توضیحی اشارات بھی ہیں۔اس بنا پر مولانا امرتسری  رحمۃ اللہ علیہ  کی  عبارت سے جواز بیمہ کامسئلہ کشید کرنادرست نہیں ہے۔(واللہ اعلم) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1ص267
Flag Counter