Maktaba Wahhabi

1737 - 2029
انشورنس کراتا ہے۔جب کہ اختتام میعاد پر مقررہ رقم سے جو کچھ زائد ملتا ہے... الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ انشورنس کراتا ہے۔جب کہ اختتام میعاد پر مقررہ رقم سے جو کچھ زائد ملتا ہے۔وہ عام سود کے طور پر مقرر نہیں جوڑا جاتا بلکہ بیمہ کی رقم تجارت میں لگا کرسالانہ نفع اور نقصان  کا لہاظ کر کےفیصدی پر رکھا جاتا ہے۔کسی سال کچھ  رقم منافع پرآتی ہے۔دوسرے سال کچھ اور علماء کرام اس بارے میں مختلف الرائے ہیں۔حضرت مولناٰ امرتسری نے بھی استفتاء پر  جواز کا فتوی ٰ دیا تھا۔لیکن کوئی دلیل نہیں فرمائی تھی۔یہاں سکو ل کے اکثر اسٹاف انشورنس شدہ ہیں میں تذبذب میں ہوں۔ )محمودالحسن رحمانی صارن( الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! میرے نزدیک ان لوگوں کا قول صحیح ہے۔ جو زندگی کا بیمہ کرانے کو ناجائز کہتے ہیں۔اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جنہوں نے اس کے جواز کافتویٰ دیا ہے۔ انسان یا جانور کی زندگی یا جایئداد کے بیمہ کرنے کی حقیقت پر غور کیا جائے۔تو سوال کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔کہ انشورنس کرانے کو جائز بتانا سود کوحلال کرنا ہے۔بیمہ کمپنیوں کا اصول ہے۔ کہ زندگی کا بیمہ کرانے والا یا بیمہ کرایا ہواجانور بیمہ کی معینہ مدت سے قبل مرجائے یا بیمہ کرائی ہوئی جایئداد کی ناگہانی آفت سے مقررہ مدت کے اندر ضائع ہوجائے۔تو بیمہ کی پوری مقررہ ر قم اس کے ورثاء کو یا جایئداد اور جانور کے مالک کو   مل جاتی ہے۔اور اگر بیمہ کرانے والا یا جانور اور جائیدادمقررہ مدت تک زندہ اور محفوظ رہے۔تو کل جمع کردہ رقم مع سود کے بیمہ کرانے والے کو یا جانور اور جائیدادکے مالک کو ملتی ہے۔اور اگر کچھ رقم جمع کرنے کے بعد بیمہ کرانے والا مسلسل دو سال تک مقررہ قسطیں ادا کرنے سے قصدا انکارکردےیا مجبورا ادا نہ کر سکےتو یہ بیمہ شدہ کمپنی ادا شدہ قسطوں کو ضبط کر لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مقررہ مدت کے اندر مر جانے یا بیمہ کردہ چیز کے تلف ہوجانے کی صورت میں اور اسی طرح مقررہ مدت تک زندہ اور محفوظ رہنے کی صورت میں بیمہ کمپنیاں بیمہ کرانے والوں کو یا ان کے ورثہ کو ان کی جمع کردہ رقم سے فائدہ جو کچھ دیتی ہیں اس کی کیا حیثیت اور نوعیت ہے اور وہ کہاں سے آتا ہے ظاہر ہے وہ صدقہ و خیرات یا تحفہ وہدیہ تو ہے نہیں اور نہ ہی قرض  ہے پھر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ایک یہ کہ بیمہ کمپنی جمع شدہ رقم دوسروں کو سود پر دیتی ہے۔اور اس میں سے ایک معین حصہ بیمہ کرانے والے کوبانٹ دیتی ہو۔ جیسا کہ عام بینکوں کا طریقہ ہے۔یا یہ کہ بیمہ کمپنی خود ہی اس روپے سے تجارت کرے۔اور اس کے منافع سے ایک معین اور طے شدہ منافع ادا کرنے ہی کا نام سود ہے۔اور یہ خیال اور توجیح کہ بیمہ کرانے والے اس تجارت   میں شریک یا رب المال اور مضارب کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور بیمہ کمپنی عامل و مضارب (بفتح الراء) کی حیثیت رکھتی ہے۔پس زائد رقم اس حیثیت سے بیمہ کرانے والوں کےلئے حلال و طیب ہوگی۔غلط اور باطل ہے۔اس لئے کہ اگر یہ صورت  حال ہو تو  ان شرکاءیا ارباب اموال (بیمہ کرانے والوں) کو ایک طے شدہ میعنہ رقم نہیں ملتی چاہے بلکہ کمی اور بیشی کے ساتھ نفع نقصان دونوں میں شریک رہنا چاہیے۔اور یہاں ایک طے شدہ معین ہی نفع ملتا ہے۔اور سوال میں زکر وہ صورت یا توجہ بھی صحیح نہیں اس لئیے کہ بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل  رقم سے جو کچھ زائد دیتی ہیں۔اس کی شرح اور مقدار پہلے سے ہی معین کر دیتی ہیں۔اور اگر اس کو کوئی کمپنی اصولا ًمعین نہ کرتی ہو۔بلکہ زید رقم کو سالانہ نفع اور نقصان کا لہاظ کر کے فی صد پر رکھتی ہو تب بھی یہ طریقہ وجہ جواز نہیں ہوسکتا۔اس لئے کہ اس کاروبار میں نقصان کا سوال آنے ہی نہ دیا جاتا و نیز بیمہ کمپنیوں کے متفقہ اصولوں میں سے ایسے اصول بھی ہیں۔جن کی وجہ سے یہ سارا کاروبار اور ڈھانچہ ہی شرعا ناجائز ہے کما سیاتی۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے۔پہلے بیمہ کرانے والوں کو بعد کے بیمہ کرانے والوں کو روپیہ دیا جاتا ہو۔لیکن اس طرح ایک کی رقم دوسرے کو دے دینے کا حق شرعا ًکسی کو بھی نہیں ہے۔ایسی صورت میں جواز فتویٰ دینا سود یا قمار کا فتویٰ نہیں تو اور کیا ہے۔اور کچھ رقم جمع کرنے کے بعدبقیہ اقساط کے قصدا یا جبرا ادا کرنے کی صورت میں ادا شدہ قسطوں کا ضبط کر لینا کسی شرعی ضابطے کی رو سےیہ اکل مال باطل نہیں تو اور کیا ہے۔نیز بیمہ کرانے والوں کیلئے ایسے کاروبار کرنے والوں کو روپیہ دینا جو بغیر کسی شرعی سبب کے ان کی رقم ایک غلط اصولوں کی رو سے ہضم کرلیں۔کہاں سے شرعا ًجائز ہے۔بحرحال انشورنس کا کام شرعا ًناجائز ہے۔یہ یورپ کے نظام سرمایہ داری کا ایک طبعی تقاضا ہے۔اور اس کا تصوربھی اسلامیت سے سخت بعید ہے۔پس زندگی کا بیمہ کرانا کیونکر ناجائز نہ ہوگا۔واللہ اعلم(رسالہ مصباح)ص9بابت شوال المکرم سن1372ھ تعاقب اہل حدیث 22 مارچ  رواں میں بیمہ زندگی کے متعلق آپ نے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔سائل کا سوال نہایت واضح ہے۔کمپنیاں کبھی زائد لیتی اور کم دیتی ہیں۔اور کبھی کم لیتی ہیں اور زائد دیتی ہیں۔1 اگر لکیر زدہ عبارت پر غور کیا جاتا  تو اس کے جواز کا فتوی نہ دیا جاتااس لئے کہ سائل کے یہ الفاظ حرمت کو خود ثابت کر رہے ہیں۔ اس طرح کہ زائد لین اور کم دین یا کم لین اور زائد دین یہ کمی بیشی کہوں اور کسی لئے بس یہی کمی اور بیشی سود یا  قمار کی ایک قسم ہے اور اکثر بیمہ کمپنیاں دھوکہ اور فریب پرمبنی ہوتی ہیں۔پھر اس جملہ رقم سود پر چلائی جاتی ہے۔اور اس کمپنی کا کام سود در سود حاصل کرنا اور دینا ہوتا ہے۔کمپنی کم لے کر جب زائد دیتی ہے۔ تو یہ عین سود ہے۔ لَا تَأْکُلُوا۟ ٱلرِّبَوا۟ أَضْعَـٰفًا مُّضَـٰعَفَةً اور کمپنی نے لیا تو زائد اور دیا کم  تو کیوں۔تو بعینہ یہ قمار یعنی جوا کی قسم ہے بہر کیف بیمہ زندگی کا پر پہلو سیاہ اور شریعت کے خلاف ہے۔قمار سٹہ لاٹری اور سود کے مجموعہ کا نام بیمہ کمپنی ہے۔لہذا قطعاً حرام ہے۔صرف نام بدلا ہوا ہے۔اور نام بدلے سے اصل نہیں بدلا کرتا ۔ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب(ابو سعید عبد الرحمٰن فریدکوٹی از سکندر آباد 4 مئی سن1934ء( فتویٰ مولناٰ ابو طیب عبد الصمد صاحب مبارکپوری میرے نزدیک بینکوںکا منافع کسی مسلم شخص  کے لئے دو شرطوں کے ساتھ جائز اور حلال ہوسکتا ہے۔مگر ان شرطوں کا وجود محال و ناممکن ہے۔پہلی شرط یہ ہے کہ وہ  روپیہ اس کاروبار میں لگایا جائے۔جو کہ شرعا جائز اور درست ہو۔ممنوع اورناجائز کام کے زریعے وہ منافع حاصل نہ ہوا۔مثلا سود کے زریعے یاشراب اور دیگرحرام شئے کی تجارت کےذریعے  نہ حاصل ہوا ہو۔ دوسر شرط یہ ہے کہ کمپنی اپنا تمام خرچ نکال کر جسقدر بچے حساب داروں کو حصہ رسد کے مطابق پورا پورا دے۔نہ کہ اکثر حصہ خود ہی رکھ لے۔اور حساب داروں اور شرکاء کوبرائے نام تھوڑی سی رقم دے کر ٹال دے۔الغرض جب تک ان دونوں شرطوں کا پایا جانا متحقق اور ثابت نہ ہو۔اور اس نفع کا کسب و حلال وطیب ہونا یقینی طور پر نہ معلوم ہو شرعا اس کے حلال او جائز ہونے کا حکم ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔(اہل حدیث امرتسر 31 دسمبر سن1937ء( فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 127-130 محدث فتویٰ
Flag Counter