Maktaba Wahhabi

1874 - 2029
ہر وہ قرض جو نفع کا باعث ہو وہ سود ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اس شخص کے قرض دینے کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی کو اس شرط پر مدت مقررہ کے لیے قرض دیتا ہے کہ وہ بھی اسی مدت کے لیے اتنی ہی رقم اسے بطور قرض دے گا؟ کیا یہ معاملہ اس حدیث کا مصداق ہے کہ ہر قرض جو نفع کا باعث ہے وہ سود ہے۔" لیکن یاد رہے اس نے زیادہ قرض لینے کی شرط عائد نہیں کی۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! یہ قرض جائز نہیں اس لیے کہ قرض دہندہ نے بھی اتنیی ہی رقم قرض لینے کی شرط عائد کی ہے یہ عقد در عقد ہے اور ایک بیع میں دو بیعوں کے حکم میں ہے اور محض قرض دینے کے بجائے منفعت کی شرط ہے اور وہ یہ کہ وہ بھی اسے اتنی ہی رقم بطور قرض دے گا۔ اور علماء کا اجماع ہے کہ ہر وہ قرج جو منفعت زائدہ کی شرط کا متضمن ہو یا اس میں اتنی ہی مقدار میں قرض دینے کی شرط عائد کی گئی ہو تو وہ ربا ہے۔ یہ حدیث: (کل قرض جر منفعة فہو ربا) (المطالب العالیة: 1/411‘ ح: 1373 و ارواء الغلیل 5/235‘ ح: 1398) "ہر وہ قرض جو منفعت کا باعث ہو وہ سود ہے۔" ضعیف ہے، لیکن حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت سے اس کے ہم معنی اقوال منقول ہیں کہ اگر قرض دیتے ہوئے نفع کی شرط عائد کی گئی ہو یا وہ حکم مشترط میں ہو یا قرض ہی کی شرط عائد کی گئی ہو تو یہ سود ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج2 ص541 محدث فتویٰ
Flag Counter