Maktaba Wahhabi

1486 - 2029
مشرک کے ذبیحہ کے متعلق شرعی حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ مشرک کے ذبیحہ کےمتعلق کیا حکم ہے ، یعنی اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے،نیز جو شخص خود کو مسلمان کہلائےاور شرک کا ارتکاب بھی کرے اس کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ذبح کرنا بھی ایک عبادت ہے، جو مشرک سے قبول نہیں کی جاتی۔ اس لئے جو بنیادی طور پر مشرک ہیں ، مثلاً: ہندو،سکھ اور بدھ مت وغیرہ ان کا ذبیحہ حرام ہے، البتہ اہل کتاب جو سماوی شریعت کے قائل ہیں۔ قرآنی صراحت کےمطابق ان کا ذبیحہ جائز قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کےلئے جائز ہے۔’’ (۵/المائدہ:۵) ا س آیت کریمہ میں کھانے سےمرادذبیحہ ہے لیکن اس کےلئے بھی شرط ہے کہ حلال جانور کو اللہ کے نام لے کر ذبح کیا جائے،نزول قرآن کےوقت اہل کتاب کی دو اقسام میں شرک پایا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ یہودی حضرت عزیرؑ اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، ان کےباوجود ان کے ذبیحہ کو مشروط طور پر ہمارے  لئے حلال قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح دور حاضر کےمسلمان جو معیاری نہیں ہیں، البتہ کلمہ گو، نماز و روزہ کے قائل و فاعل ہیں،اگر بظاہر کوئی شرکیہ کام کریں تو ان ذبح کردہ جانور حرام نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر شرک و بدعت کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہوں، ضد اور ہٹ دھرمی کے طورپر شرک کا ارتکاب کرتےہیں تو ایسے لوگوں کے ذبیحہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اگر کسی انسان میں شرک کے اسباب موجود ہوں تو اسے مشرک قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کوئی موانع نہ ہوں۔ اگر اسباب کےساتھ کوئی رکاوٹ یا مانع موجود ہوتو انہیں مشرک نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر راقم نے مورخہ ۲۷جولائی بمقام دفتر’’محدث‘‘ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک درس دیا تھا اور وہ دفتر محدث سے مل سکتا ہے۔ اس میں وضاحت کی تھی کہ کسی کو مشرک یا کافر قرار دینے کے اسباب ،ضوابط ، شرائط اور موانع کیا ہیں۔ قرآن و حدیث میں ہمیں اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ ہم حلال اور طیب مال استعمال کریں ، اس سلسلہ میں (انی کنت من الظالمین)کثرت سے پڑھا کریں ، اس میں بہت خیر و برکت ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص451
Flag Counter