Maktaba Wahhabi

1782 - 2029
تجارت میں ایک بنیادی شرط السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تجارت میں ایک بنیادی شرط الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! تجارت کو ہمیشہ ہی بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔تجارت کا سلسلہ چونکہ بہت ہی اہم ہوتا ہے اس لئے اس میں بعض ایسے امور پائے جاتے ہیں جوج دوسرے کاموں میں نہیں پائے جاتے۔مثلا عام طور پر تجارت کا پھیلاؤ اتنا ہوتا ہے کہ ایک آدمی اس پر قابو نہیں پا سکتا اس میں دو یا دو سےزیادہ آدمی شریک ہوتے ہیں۔اس میں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔جو تندرست و توانا ہوں اور محنت اور مستعدی سے مال فروخت کریں روپیہ پیسہ بے شک کچھ نہ لگائیں ایسے لوگوں کو منافع سے مناسب حصہ دیا جاتا ہے اور تجارت میں ایمان دا تجربہ کار اور تعلیم یافتہ  افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ ان اوصاف کے حامل لوگ روپے سے تہی دامن ہوتے ہیں اور جن کے پاس روپیہ پیسہ ہوتا ہے وہ بسا اوقات ان اوصاف سے محروم ہوتے ہیں۔ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو برابر یا تیسرے چوتھے  پانچوے حصے کی رقم ادا کرکے شریک کاروبار ہوتے ہیں ان میں اس قسم کے افراد بھی ہوتے ہیں جو اپنے حصے کی رقم کے علاوہ اپنی محنت اور کوشش کا ماہانہ معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں اس طرح اور بھی بہت سی چیزیں تجارت میں  پائی جاتے ہیں۔جو دوسرے کاموں میں نہیں  پائی جاتیں ۔شریعت میں اس کی نشان دہی بلکہ وضاحت کی گی ہے اور اس میں شراکت کےلئے بہترین اصول بھی  بیان کئے گئے ہیں تجارت میں شراکت کاروباری اعتبار سے بہت اچھی چیز ہے جو محنت اور تگودود ایک آدمی کو کرنا پڑتی ہے شراکت کی صورت میں وہ متعدد بار اقرار کرتے ہیں  اور اسی طرح مال کی کھیپ اور فروخت کا حلقہ ہر ایک کی سعی اور ہمت سے  زیادہ وسیع ہوتا ہے او  جب ایک چیز پرایک کی بجائے کئی آدمیوں کی توجہ مبذول رہے گی تو مال بھی اچھا اور جاذب نظر تیار ہوگا جس کی وجہ سےمارکیٹ میں ان کے مال کی قیمت  زیادہ بڑھے گی۔اس لئے کہتے ہیں کہ اتفاق  میں برکت ہوتی ہے اور اس میں کامیابی کے امکانات  زیادہ پائے جاتے ہیں۔خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوت کی نعمت عظمیٰ پر سرفراز ہونے سے قبل تجارت کی ہے اور اس کی بعض شکلوں میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ شریک و سہیم رہے ہیں۔اور بلوغ المرام کے باب الشرکۃ والوکالۃ میں مسند امام احمد بن حنبل۔سنن ابی داؤد۔اور ابن ماجہ کے حوالہ سے ایک حدیث ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے ایک صاحب کے ساتھ کاروبار میں شریک تھے ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ وعن السائب المخذومی انہ کان شریک النبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل البعثة فجاء یوم الفتح فقال مرحبا باخیوشریک سائب مخزومی سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملے سے پہلے آپ کے ساتھ تجارت میں شریک تھے وہ فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے میرے بھائی اور شرک میں آپ کو اس عظیم الشان کامیابی  پرمبارک باد پیش کرتا ہوں اور آپ کو خوش آمدید اورمرحبا کہتا ہوں تجارت میں شرکت احادیث سے ثابت ہے لیکن اس میں اولین شرط ایمانداری اور  دیانت داری ہے حصہ دار و ں کا  پہلا فرض ہے کہ وہ دیانت داری سے کام کریں اورکسی قسم کی خیانت اور بددیانتی  کے ہرگز قریب نہ جایئں جس شخص کے جو کام بھی سپرد ہے اس کودیانتداری کے ساتھ انجام دے۔جس کے پاس رقم ہے۔وہ اسی ی حفاظت کرے اور جس کے زمہ کوئی دوسرا کام لگایا گیا ہے وہ حسن خوبصورتی کے ساتھ وہ کام کرے۔وقت مقرر پر آئے خود کام کرے دوسروں سے کرائے کام چور نہ خود بنے نہ دوسروں کو بننےدے۔ جب تک یہ صورت حال رہے گی ایمان داری اورشراکت میں برکت رہےگی اور اللہ ان کےکاروبار میں اضا فہ کرے گا جب یہ صورت نہ رہے گی اور ہر ایک اپنے اپنے کام مفوضہ فرائض میں خیانت کا ارتکاب کرنے لگے گا تو ان میں نہ توبرکت رہے گی اورنہ ایک دوسرے پر اعتمادرہےگا اورنہ اللہ کی امدادو اعانت ان کے شامل حال رہے گی۔اس سلسلہ میں سنن ابو داؤد میں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ عن ابی ہریرة قال فال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ تعالی  انا ثالث الشریکین ما لم ینحن احد ہما صاحبہ فاذا فانہ خرجت من بینہا حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!اللہ کا فرمان ہے میں دو حصہ داروں میں تیسرا ہوتا ہون جب تک ان دونون میں سےکوئی اپنےساتھی کے ساتھ خیانت نہ کرے جب خیانت کرتا ہے تومیں درمیان میں سےنکل جاتا ہوں۔حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مددو حصہ داروں کو حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر اس وقت تک نظر کرم رکھتے ہی اور ان کے کاروبار میں برکت پیدا کرتے ہیں جب تک یہ آپس میں مخلص رہتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ  محبت ا و رتعاون رکھتے ہیں اور باہم امانت داری کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں اورجب یہ چیزدرمیان سے اٹھ جائے اور حص ہداربد دیانت و خیانت پر اتر آئیں تو اللہ کی مدد سے محروم ہوجاتے ہیں اور برکت باقی نہیں رہتی جو ان کے زمانہ امانت و دیانت میں پائی جاتی تھی ظاہر ہے جب ایک خیانت کرے  گا و دوسرے کو لازما کسی نہ کسی وقت شک گزرے گی پھر اس کی بھی یہی کوشش ہوگی کہ وہ بھی وہی کچھ کرے جودوسرے نے کیا ہے اگر کسی کے پاس مشترکہ روپیہ ہے تو  اسمیں خیانت کرے گا۔اور غلط حساب پیش کرے گا اگر کوئی کاروبار میں محنت  کرتا ہے اور وقت صر کرتا ہے تواس میں سستی کرے گا دیر سے کام پر آئے گا او جب تک رہےگا بیم دلی سے رہے  گا خود بھی اچھی طرح کام نہیں کرے گا دوسروں سے بھی نہیں کرائے گا ہر حصہ داردوسرے کو شک کی نظر سے دیکھے گا او دل سے بُرا سمجھے گا۔ میل جول گفتگو اور ضروری کاروباری مشوروں سے جو نہایت ضروری ہے گریز کرےگا آہستہ آہستی دل کی بات زباب پ آئے گی جب کارندے حصہ داروں کے اس معاملہ کے اس پہلو کودیکھیں گے تو وہ بھی سستی کریں گے اس کا ثر مال کی تیاری پر پڑے گا او پھر مال کی کھیب او فروخت کادائرہ بھی سمٹ جائے گا ۔اور اسطرح سارا کاروبارمعطل ہو کر رہ جائے گا کاروبار میں امانت ایک دوسرے سے خیر خواہی حصہ داوں کا آپس میں حسن سلو ب نیتوں کی صفائی باہم تعاون و مشاورت نہایت ضروری ہے اوردرحیقیت اسمیں کاروبار کی  ترقی اور فروغ کار از  مضمرہے اور کارباری حضرات کو یہ حدیث ہروقت پیش نظر رکھنی  چاہیے اوراس پے کاروبار کے فروغ اورترقی کے لئے اس پر عمل پیرا رہنا چاہیے اور جواس پر عامل رہیں گے اور اپنے کارروبار کو دیانت داری کے بلند اصولوں کے مطابق چلاییں گے وہ یقینا  کامیاب رہیں گے اور جو لوگ  اس بنیادی اصول کو نظر انداز کردیں گے وہ ناکام و خاسر رہیں گے او بڑے سے بڑے کاروبار کو بھی تباہی و بربادی سے نہیں بچا سکیں گےجب ان میں باہمی تعاون اور امانت باقی نہ رہی تواللہ کی مدداوربرکت نہ رہی ۔اورجب اللہ تعالیٰ کی مدداوبرکت نہ رہے گی تو کاروبار کس طرح باقی رہے گا۔(الاعتصام جلد نمبر 13 شمارہ 51(   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 201-204 محدث فتویٰ
Flag Counter