Maktaba Wahhabi

1611 - 2029
سود سود کے مال سے تعمیر مکان کے ترکہ میں ورثاء کا حصہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک شخص نے اپنے پراویڈینٹ فنڈ، انشورنس، اور ہاوس بلڈنگ سے قرض لیکر جس میں سود بھی شامل ہوتا ہے اپنا مکان تعمیر کیا اب جبکہ اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کی اولاد کے لیے اس کے ترکہ کا کیا حکم ہے ۔؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جس نے بھی سودی قرض لیا اورپھر اس قرضے سے جائیداد خریدی تو اس کے فوت ہونے کےبعد یہ جائیداد بھی اس کے ترکہ میں شامل ہوگی۔ اور وہ وراثت بنے گی ، اور مرنے والے شخص کوسودی لین دین کرنے کی بنا پر گناہ ہوگا ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: ( حرام کمائی کامال صرف کمائی کرنے والے پر حرام ہے مثلا سود ، لہٰذا جب سودی لین دین کرنے والا شخص فوت ہوجائے تو ورثاء کے لیے اس کا مال حلال ہے ، لیکن جواشیاء بعینہ حرام ہیں مثلا شراب وغیرہ تو یہ نقل کرنے والے اور جس کی طرف منتقل ہو اس پر بھی حرام ہے ، اور اسی طرح جوچیز حرام ہو اور اس میں حرمت باقی رہے مثلاً غصب اور چوری کردہ اشیاء ، تو اگر کسی انسان نے کوئی چیز چوری کی اور مرگیا تووہ چیز وارثوں کے لیے حلال نہیں ہوگی اور پھر اگر اس کے مالک کا علم ہو تووہ چیز اسے واپس کی جائے گی وگرنہ مالک کی جانب سے صدقہ کردی جائے گی ) انتھی ۔ لقاءات الباب المفتوح سے لیا گیا ( 1 / 304 ) اور مستقل فتوی کمیٹی نے سودی قرضہ سے گھربنانے والے شخص کےبارہ میں فتویٰ دیا کہ اس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہے ، لیکن عمارت منہدم کرنا لازم نہیں بلکہ رہائش وغیرہ کرکے نفع حاصل کرنا جائز ہے۔دیکھیں [ARB]فتاوی اللجنة الدائمة [/RB]( 13 / 411 ) اسی بارے شیخ صالح المنجد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بلا شبہ موجودہ وقت اور خاص کرآپ کے ملک میں سیاحت کے شعبہ میں کام کرنا بہت سی شرعی مخالفات کولازم کرتا ہے جس میں مرد وعورت کے اختلاط اور بے پردگی کی دیکھ بھال اور بعض اوقات تو شراب اور دوسری حرام اشیاء بھی اس میں شامل ہوتی ہیں ، اگرتومعاملہ ایسا ہے توپھر آپ کےوالد کا مال حرام ہے اور علمائے کرام اسے مال مختلط کانام دیتے ہیں ۔ اور علمائے کرام کا فیصلہ ہے کہ جس کے مال میں حلال وحرام ملا جلا ہو اس کے مال سے کھانا جائز ہے اور ہرطرح کےمعاملات کرنےجائز ہیں ، لیکن اس سے بچنا اولیٰ اورافضل ہے۔ اور آپ کےوالد کا ضروریات ممنوعات کومباح کردیتی ہیں، والے قاعدہ سے دلیل لینا صحیح نہیں ، کیونکہ حلال کمانے کے بہت ذرائع اور وسائل ہیں اور فرمان باری تعالی ہے: ’’اور جوکوئی اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے اللہ تعالی اس کےلیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے روزی وہاں سے عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘ اور اگرانسان اپنے لیے یہ دروازہ کھول لے توضرورت کودلیل بنا کر حرام کے ہردروازے میں داخل ہوجائے گا ۔ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ حرام خوری کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اگر کچھ بھی نہ ہو پھر بھی حرام کھانے والےشخص کی دعا کبھی قبول نہیں ہوتی جیسا کہ صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے ... ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جس نے بہت طویل اور لمبا سفر طے کیا اس کے بال بکھرے ہوئے اور پراگندہ حالت میں وہ آسمان کی جانب ہاتھ بلند کیے یارب یارب کہے اور اس کا کھانا حرام کا اس کا پینا حرام کا اور اس کا لباس بھی حرام کا اوراس کی غذا ہی حرام خوری ہے تواس کی دعا کہاں قبول ہو ۔ صحیح مسلم ( 1015 ) اور آپ کے والد کا اس حرام ملازمت سے مال کمانے کوعلمائے کرام حرام کمائی( مالامحرمالکسبہ ) کا نام دیتےہیں یعنی اس نے حرام طریقے سے مال کمایا ہے ، اور بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ یہ مال صرف کمائی کرنے والے پر حرام ہے ۔ لیکن جوشخص یہ مال کسی مباح اور جائز طریقہ سے حاصل کرے اس پر حرام نہیں مثلاً اگر آپ کے والدآپ کو ہدیہ دیں یا پھر خرچہ وغیرہ دیں تو آپ کےلیے یہ حرام نہیں ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: حرام کمائی کا گناہ صرف کمائی کرنے والے پرہے نہ کہ کمائی کرنےوالے شخص سے حاصل کرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطریقہ سے حرام کمائی والے شخص سے حاصل کیا، بخلاف اس چیزکے جوبعینہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب کردہ چیز وغیرہ ۔ یہ قول قوی اور وجیہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کےلیے ایک یہودی سے غلہ خریدا تھا ، اور خیبرمیں ایک یہودی عورت کی جانب سے ہدیہ کردہ بکری کا گوشت کھایا ، اور یہودی کی دعوت قبول کی ۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کی اکثر یہودی سود لیتے اورحرام خور ہیں ، اور اس قول کی تقویت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل قول سے بھی ہوتی ہے : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا پر صدقہ کیےگئےگوشت کےبارہ میں فرمایا : ( وہ اس کےلیےتوصدقہ اوراس کی جانب سے ہمارے لیے ہدیہ ہے )۔دیکھیں القول المفید علی کتاب التوحید ( 3 / 112 ) اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے : جوخبیث اور حرام طریقہ سے کمایا گیا ہو مثلاً دھوکہ اور فراڈ سے حاصل کردہ ، یا پھر سود کے ذریعہ یا جھوٹ وغیرہ کے ذریعہ حاصل کردہ مال یہ کمانے والے پر حرام ہے اس کے علاوہ کسی اور پر حرام نہیں اگراس نے مباح اور جائز طریقہ کےساتھ حرام کمائی والے سے حاصل کیا ہو . اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں سے لین دین کرتے تھے حالانکہ وہ حرام خور اور سود لیتے ہیں ، تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ کمائی کرنے والے کےعلاوہ کسی اورپر یہ حرام نہیں۔تفسیر سورۃ البقرة ( 1 / 198 ) تواس بنا پر آپ اپنے والد کی وارثت حاصل کرسکتے ہیں ، اور یہ آپ کے ذمہ نہیں کہ انہوں نے جوکچھ دیا ہے اس کا حساب وکتاب کرتے پھریں یا پھر جودیا ہے وہ واپس کریں ، لیکن اگر آپ اس کے مال سے نہ کھانے کی استطاعت رکھتے ہیں تویہ اولیٰ اور بہتر اور اسی میں ورع وتقوی ہے۔ واللہ تعالی اعلم ،مزید تفصیل کے لیے آپ مندرجہ ذیل کتب دیکھیں۔ احکام القرآن لابن العربی ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوی الفقھیة الکبری للھیتمی (2 / 233 ) کشاف القناع ( 3 / 496 ) درج بالا فتاوی سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ ۱۔ حرام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حرام بنفسہ ہے یعنی جو اپنی ذات میں حرام ہو تو یہ مال وراثت کے طور پر منتقل نہیں ہوتا ہے جیسا کہ کسی کے والد کی شراب کی فیکڑی تھی یادوسروں کی غصب کردہ زمین تھی یا چور ی وڈاکے کا مال تھاتو یہ مال وراثت نہیں بنے گا بلکہ اصل مالکان کو لوٹا یا جاے گا۔ ۲۔ حرام کی دوسری قسم حرام لغیرہ ہے یعنی جو چیز بنفسہ حرام نہ ہو لیکن فاعل کے فعل کی وجہ سے حرام قرار پائے جیسا کہ مال تجارت یا خرید وفروخت میں جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر یا سود یا انشورنس وغیرہ سے مال کمانا ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب محدث فتوی فتوی کمیٹی
Flag Counter