Maktaba Wahhabi

1883 - 2029
سود کی رقم مجبور شخص کو دینا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک آدمی نے دو لاکھ روپے بنک میں رکھے، اسے ایک سال دس ہزار سود ملا، اگر سود نہیں لیتا تو بنک عملہ اسے بانٹ لےگا، لہٰذا وہ آدمی اپنی سود کی رقم کسی ایسے شخص کو دے دیتا ہے جس کے لئے مرد اراور خنزیر کھانا بھی حلال ہے  ، کیا ایسا کیا جاسکتا ہے ۔واضح رہےکہ وہ آدمی سود کی رقم لینے کو بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ہمارے نزدیک سود ایک ایسی غلاظت ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ممکن طورپر بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اسلام ہر پہلو سے اس نظام کا استیصال چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سنگینی جو بایں الفاظ بیان کیا ہے‘‘ اگر تم اس سے باز نہیں آؤگے تو اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔’’ (۲/البقرہ:۲۷۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی اس گندے  نظام سےنفرت دلائی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:‘‘سود دینےوالا ، اس پر گواہی دینے والا، اسے لکھنے والا سب ملعون ہیں اور یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ ’’ (صحیح مسلم ،البیوع:۱۵۹۸) نیز آپ نے فرمایا کہ ‘‘اگر اس جرم عظیم کےستر حصے کئے جائیں تو اس کا ہلکا حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔’’(ابن ماجہ ،الطہارۃ:۲۲۷۴) بلکہ آپ نے سود کھانے کو چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ (مسند اما م احمد) لیکن ہم لوگ اس کےمتعلق نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں کہ اسے بنک سے وصول کرلینا چاہیے۔ پھر اس کی تین قسم بیا ن کی جاتی ہیں: (۱)ثواب کی نیت کئے بغیر کسی محتاج یا رفاہ عامہ میں خرچ کیا جائے۔ (۲)بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت  پڑے تو اس کی جگہ سود کی رقم کو صرف کردیا جائے۔ (۳)ناجائز ٹیکسوں پر اسے صرف کردیا جائے۔ مگر جب اس سلسلہ میں شریعت کےاحکام دیکھتےہیں تو مصلحتوں کا یہ تعبیر کردہ بلند و بالا محل دھڑام سے نیچے آگرتا ہے، کیونکہ انسان فطرتاً حریص واقع ہوا ہے، لہٰذا اسے مال کسی راہ سے بھی نظر آئے تو اسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا، جب اسے سود وصول کرنےکی اجازت مل جائے گی تو اس گندگی سے خود پاک و صاف نہیں رہ سکےگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کےنظریہ میں لچک پیدا ہونا شروع ہوجائے گی ،پھر خود اسے استعمال کرنے کی راہیں تلاش کرےگا شریعت اسےمال تسلیم نہیں کرتی کہ اسے وصول کرکے دوسری جگہ پر صرف کیا جائے۔ قرآن کریم کی واضح ہدایت ہےکہ ‘‘تم سود سے توبہ کرلوتو تم صرف اپنے اصل سرمایہ کےحقدار ہو۔’’ (۲/البقرہ:۲۷۹) جب سود کی رقم ہماری نہیں ہے تو ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اس کا مصر ف کیا ہوناچاہیے،بنک کاعملہ ملی بھگت کرکے اسے ہڑپ نہیں کرسکے گا۔ یہ ایک مفروضہ ہے یہ رقم کسی عرصہ تک اس کے اکاؤنٹ میں پڑی رہے گی، پھر رفتہ رفتہ سروس چارج جیسے چور دروازہ سےنکلنا شروع ہوجائے گی۔ صورت مسئولہ میں اس قسم کی غلاظت وصول کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ، کیونکہ : اولاً:تو کوئی آدمی ان دنوں ایسے حالات سےدوچار نہیں ہوسکتا کہ اسےمردار اور خنزیر کھانےتک نوبت آجائے۔ ثانیاً:جو آدمی دولاکھ کا مالک ہے ، اسے چاہیے کہ اپنے دوسرے بھائی کو گندگی کھلانے کی بجائے و ہ اپنی حلال پاکیزہ کمائی سے اس سے تعاون کرے یا کم ازکم دولاکھ سے پانچ ہزار زکوٰۃ ہی اسے دیدے۔ ثالثاً:ہماری جماعت ابھی تک ایسی خود غرضی کی شکار نہیں ہوئی کہ اس میں ایسے اہل خیر کا فقدان ہوجو آڑے وقت کسی کےکام نہ آسکتے ہوں ،ا س طرح کا مجبو ر انسان راقم الحروف سےرابطہ کرے اللہ کی توفیق سےہم اسے اس قسم کی گندگی کے پاس نہیں جانے دیں گے انشاءاللہ۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص425 محدث فتویٰ
Flag Counter