Maktaba Wahhabi

926 - 2029
سالگرہ منانے کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا سالگرہ یا برتھ ڈے منانا جائز ہے؟ اور کیا ایسے پروگرامز میں شرکت درست ہے۔؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! کتاب و سنت کے شرعی دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ سالگرہ منانا بدعت ہے، جو دین میں نیا کام ایجاد کر لیا گیا ہے شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور نہ ہی اس طرح کی دعوت قبول کرنی جائز ہے، کیونکہ اس میں شریک ہونا اور دعوت قبول کرنا بدعت کی تائید اور اسے ابھارنے کا باعث ہوگا. ارشاد باری تعالی ہے: أم لہم شرکاء شرعوا لہم من الدین ما لم یأذن بہ اللہ۔ (الشوری : 21) کیا ان لوگوں نے ( اللہ کے ) ایسے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔  دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے: ثم جعلناک علی شریعة من الأمر فاتبعہا ولا تتبع أہواء الذین لا یعلمون . إنہم لن یغنوا عنک من اللہ شیئاً وإن الظالمین بعضہم أولیاء بعض واللہ ولی المتقین۔ (الجاثیۃ : 18 – 19) پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کر دیا سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں ،یہ لوگ ہرگز اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آ سکتے کیونکہ ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ تعالی پرہیزگاروں کا کارساز ہے ۔ اور اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء قلیلاً ما تذکرون۔ (الاعراف : 3) اللہ تعالی کی جانب سے جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو، اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو، تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔  اور صحیح حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد ‘‘ (مسلم)  جس کسی نے بھی کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الہدی ہدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، و شر الأمور محدثاتہا وکل بدعة ضلالة ‘‘ سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر راہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور سب سے برے امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس موضوع کی متعدد احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں. پھر ان تقریبات کا بدعت اور برائی ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل بھی نہیں ہے، بلکہ یہ تو یہود و نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہے، کیونکہ یہ تقریبات وہی مناتے ہیں. اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ان کے طریقہ اور راہ پر چلنے سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: " لتتبعن سنة من کان قبلکم حذو القذة بالقذة حتی لو دخلوا حجر ضب لدخلتموہ : قالوا یا رسول اللہ : الیہود و النصاری ؟ .. قال : فمن ) أخرجاہ فی الصحیحین . ومعنی قولہ " فمن" أی ہم المعنیون بہذا الکلام وقال صلی اللہ علیہ وسلم : "من تشبہ بقوم فہو منہم " (بخاری،مسلم) ’’ تم لوگ ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی پیروی اور اتباع کرو گے بالکل اسی طرح جس طرح جوتا دوسرےجوتے کے برابر ہوتا ہے، حتی کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ اور بِل میں داخل ہوئے تو تم میں اس میں داخل ہونے کی کوشش کروگے. صحابہ کرام رض نے عرض کیا: اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور کون " اور کون ؟ کا معنیٰ یہ ہے کہ اس کلام سے مراد اور کون ہو سکتے ہیں۔  اور ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " جس کسی نے بھی کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے " [ فتاوی اسلامیۃ : 1 / 115 ] ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتویٰ کمیٹی محدث فتویٰ
Flag Counter